Book Name:Guftagu Kay Adaab
سمجھاتی ہیں *ہمارے ہاں دوسروں کے سامنے سمجھانے کا بھی رواج عام پایا جاتا ہے، چھوٹے بھائی سے غلطی ہو گئی، بیٹے سے غلطی ہو گئی، گھر کے دوسرے کسی فرد سے غلطی ہو گئی تو گھر میں جب کوئی مہمان آیا ہو تو اس کے سامنے ساری سٹوری بیان کر کے پِھر سمجھایا جا رہا ہوتا ہے *ایسے ہی نیکی کی دعوت دینے میں بھی بعض دفعہ بہت سخت لہجے اِختیار کئے جاتے ہیں*سوشل میڈیا پر تو کہہ لیجئے کہ پُورا ایک طوفان ہے، کسی کی کوئی کمزور بات پتا چلنی چاہئے، جو سوشل میڈیا پر شور مچتا ہے، اسے بُرا بھلا کہا جاتا ہے، عزّت کی دھجیاں اُڑا دی جاتی ہیں، پِھر کہا جاتا ہے کہ یہ بڑا ضِدِّی ہے، مغرور ہے، بات نہیں مانتا، نافرمان ہے اور نہ جانے کیسے کیسے اَلْقاب سے نوازا جا رہا ہوتا ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو! یہ بہت غلط اَنداز ہے۔سمجھانا چاہئے مگر نرمی کے ساتھ ...!! نرمی سے، پیار محبّت سے، حکمتِ عملی کے ساتھ سمجھائیں گے تو اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! سمجھانے کا فائدہ ہو گا۔ اعلیٰ حضرت اِمامِ اہلسنّت اِمام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اَعْمَال میں ہِدایت نرمی سے چاہئے کہ سختی سے ضِدْ نہ بڑھے۔([1])
ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں
فرعون کو بھی نَرْمی سے سمجھایا
علّامہ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک بہت خوبصُورت بات لکھی، کہتے ہیں: سمجھانے والا کوئی بھی ہو، حضرت موسیٰ اور ہارُون علیہما السَّلام سے اَفْضَل نہیں ہو سکتا اور گنہگار (جسے سمجھایا