Book Name:Guftagu Kay Adaab
جا رہا ہے) وہ کیسا ہی ہو، فرعون سے بڑھ کر خبیث اور بُرا نہیں ہو سکتا، اللہ پاک نے حضرت موسیٰ اور ہارُون علیہما السَّلام کو حکم دیا: ([1])
فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا (پارہ:16، طہ:44)
تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان: تو تم اس سے نرم بات کہنا۔
پتا چلا؛ کوئی کیسا ہی گنہگار ہو، کتنا ہی بدکردار ہو، سمجھانا ہے تو نَرْمِی ہی سے سمجھایا جائے گا *سختی کی گئی *کرخت لہجے اپنائے گئے *تیکھے جملے *اور گرم گرم لفظ بولے گئے تو سامنے والے کا سُدھرنا تو مشکل ہے، اُلٹا بگڑ جانے کے چانس(Chance) زیادہ ہیں۔ اس لیے جب بھی بَوْلیں *اچھا ہی بولیں *نرمی سے بات کریں *پیار محبّت سے سمجھائیں *میٹھے میٹھے لفظ بولیں *پیار بھرا، نرم نرم لہجہ اپنائیں، اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! پُرکشش شخصیت بن جائیں گے۔
حضورِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: جنت میں ایسے بالا خانے (یعنی اونچے اونچے مکانات) ہیں جن کے باہَری حصے اندر سے اور اندر کے حصے باہَر سے نظر آتے ہیں۔ پوچھا گیا:یارَسُولَ اللہ صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ! یہ کس کے لیے ہوں گے؟ فرمایا: *جو اچھی گفتگو کرے *کھانا کھلائے *ہمیشہ روزے رکھے اور *رات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں اس وقت نماز ادا کرے۔([2])
حضرت اَبُو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں، حضور نبئ اکرم، نُورِ مُجَسَّم صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم