Book Name:Shoq e Madina
یہی بات حدیثِ پاک میں بتائی گئی کہ جس طرح سانپ جب بِل میں جاتا ہے تو اس کی کھال تازہ اور چمکدار ہو جاتی ہے ، ایسے ہی جب بندہ دنیا میں ہوتا ہے ، دیگر شہروں میں رہ رہا ہوتا ہے تو اس پر شیطان بھی حملہ آور ہوتا ہے ، نفس گناہ بھی کروا دیتا ہے ، دنیا داری کی طرف دل مائل بھی ہو جاتا ہے ، جس کی وجہ سے ایمان کمزور پڑنا شروع ہو جاتا ہے ، تب ایمان کو دوبارہ سے تازگی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تازگی کیسے ملتی ہے ؟ فرمایا : اِنَّ الْاِيمَانَ لَيَاْرِزُ اِلَى الْمَدِينَةِ ایمان مدینے کی طرف سمٹتا ہے۔یعنی جب عاشقانِ رسول دنیا میں رہتے ہیں دیگر شہروں میں ، اپنے اپنے علاقوں میں رہتے ہیں ، وہاں ان کو دنیا داروں سے بھی واسطہ پڑتا ہے ، شیطان سے بھی واسطہ پڑتا ہے ، نفس بھی گھائل کرتا ہے ، اب ان کا ایمان کمزور پڑنا شروع ہو جاتا ہے ، پھر وہ مدینۂ مُنَوَّرَہ پہنچتے ہیں تو مدینۂ مُنَوَّرَہ کی آب و ہوا ایسی نرالی ، ایسی ایمان افروز ہے کہ اس کی برکت سے ایمان کو دوبارہ سے تازگی مل جاتی ہے۔
مدینے کی کھجور سے ایمان کی تازگی
عظیم عاشقِ رسول ، حضرت مُحَدِّثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ مدینۂ مُنَوَّرَہ سے بہت محبت کیا کرتے تھے ، آپ رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی محفل میں اکثر مدینۂ مُنَوَّرَہ کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا ، اگر کوئی زا ئِرِمدینہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اس سے مدینۂ مُنَوَّرَہ کے حالات پوچھتے ، مدینۂ مُنَوَّرَہ کے رہائشی عاشقانِ رسول کی خیریت دریافت کرتے اور اگر کوئی تبرک پیش کرتا تو بڑی خوشی سے قبول فرماتے۔ ایک دفعہ ایک حاجی صاحب مدینۂ مُنَوَّرَہ سے واپس آئے ، وہ کھجوریں لے کر حاضر ہوئے اور حضرت مُحَدِّثِ اعظم پاکستان رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی خدمت میں پیش کیں ، اس وقت دورۂ حدیث جاری تھا ( یعنی کلاس لگی ہوئی تھی ) اور مُحَدِّثِ اعظم پاکستان