Sila Rehmi

Book Name:Sila Rehmi

  ( السنن الکبریٰ ، کتاب الشہادات ، باب المعاریض فیہامندوحۃ۔۔۔الخ ، ۱۰ /  ۳۳۶ ، حدیث : ۲۰۸۴۳ ، ازفتاویٰ رضویہ ، ۲۴ /  ۳۴۴ ، ملخصاً)

 پیارے اسلامی بھائیو ! آپ نے سنا کہ سرکارِاعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ  نے سُوال کرنے والے کو ضرورتِ شرعی کی بنا پر تَورِیہ کی ترغیب اِرشاد فرمائی ، شرعی عُذر کی بنا پر تَوریہ کرنے سے انسان جُھوٹ سے بچ جاتا ہے ، مگر یادرہے ! توریہ کرنے کی مخصوص صُورتیں ہیں ، بِلا ضرورت توریہ کرنا شرعاًناجائزہے جیسا کہصَدْرُالشَّریعہ مُفتی محمدامجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : توریہ یعنی لفظ کے جوظاہرمعنیٰ ہیں وہ غلط ہیں ، مگرکہنے والےنے دُوسرے معنیٰ مُرادلئے جوصحیح ہیں ، ایساکرنابِلاحاجت جائزنہیں اورحاجت ہوتوجائزہے۔تَوریہ کی مثال یہ ہے کہ تم نے کسی کوکھانے کے لئے بُلایاوہ کہتاہے ” میں نے کھاناکھالیا “ اِس کے ظاہرمعنیٰ یہ ہیں کہ اِس وَقْت کاکھاناکھالیاہے ، مگروہ یہ مُراد لیتاہے کہ کل کھایاہے یہ بھی جُھوٹ میں داخل ہے ( اِس لئے کہ یہاں تَوریہ کرنا جائز نہ تھا)۔   ( بہارشریعت ، ۳ /  ۵۱۸ ، حصہ۱۶ملخصاً)

فتاویٰ رضویہ کےسُوال و جواب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی ایک رِشْتے دارکے کہنے پر بِلا وَجْہِ شرعی کسی دوسرے رشتے دار سے قَطعِ تَعَلُّق کرنا شرعاً ممنوع ہے ، عُمُوماً ایسے مواقع پر اِنصاف کے تَقاضے پُورے کرنا مُشکل ہوجاتا ہے اور بڑوں  بڑوں کے قدم  اِس موڑ پر آکر ڈگمگا جاتے ہیں ، لیکن ہمّت سے کام لیجئے ، رَبّ تَعالیٰ کی رحمت پرنظر رکھئے اوراِس حدیثِ پاک ” حکمت مومن کا گمشدہ خزانہ ہے۔  ( ترمذی ، کتا ب العلم ، با ب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ ، ۴ /  ۳۱۴ ، رقم : ۲۶۹۶)کو مدِّنظر رکھتے ہوئے حکمتِ عَمَلی و دیانتداری کے ساتھ ایسی تَدابیر اِخْتیارکرنے کی کوشش  کیجئے کہ فریقَین کے درمیان صُلْح کی ترکیب ہوجائے اور کسی کی حق تَلَفی بھی نہ ہو ، کیونکہ کسی ایک فریق کی بات  تسلیم کرلینے سے  قَطعِ رِحم لازِم آئے گا کہ جو ناجائز  وحرام ہے اور ایسا حکم ماننا بھی شرعاً جائز نہیں کہ جس کے سبب خالق و مالک کی نافرمانی لازِم آتی ہو ، جیسا کہ مکی مدنی مصطفیٰ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرشادفرمایا : لَا طَاعَةَلِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِیعنی خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اِطاعت جائز نہیں۔ ( معجم کبیر ، ۱۸ /  ۱۷۰ ،