Book Name:Sila Rehmi
ہے ، زیداپنے تایا اور بہن دونوں سے ملتاہے ، لیکن اب زید کی بہن اور تایا کے درمیان سخت اَن بَن ہوگئی ہےاور زید کی بہن اپنے سگے بھائی زید سے یہ کہتی ہے کہ تم اگر اپنے تایا سے مِلوگے تومیں تم سے نہیں مِلوں گی ۔اِتفاقاً زید کی شادی کا وَقْت قریب آگیااور زید کی بہن کا کہنا ہے : اگرتایا کو شادی میں بُلایا تو میں اس میں شرکت نہیں کروں گی ، اس صُورت میں تایا کی دل آزاری کا اندیشہ ہے اور اگر تایا کو بُلائے تو بہن کو صَدمہ پہنچے گا۔ایسی حالت میں زید کو کیاکرناچاہئے؟ کیا زید اپنی بہن کاکہنا مان کرتایاکو شادی میں نہ بُلائے یا اپنی بہن کو چھوڑکر اپنے تایا کو بُلائے؟
سرکارِاعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ اس کاجواب دیتے ہوئے اِرْشادفرماتے ہیں : بہن اورچچا دونوں ذِی رِحم مَحْرَم ہیں ، کسی سے قَطعِ رِحم کرنا جائزنہیں۔ زید کو چاہیے کہ اپنی بہن کو جس طرح ممکن ہو راضی کرے ، اگرچہ یُوں کہ پوشیدہ طور پر اپنے چچا کو شادی میں شریک ہونے کی دعوت دے اور اپنی بہن سے کہہ دے کہ مجھے ہرطرح تیری مَرضی منظور ہے ، نہ اُن کوبُلاؤں گا نہ شریک کروں گا ، البتہ اِتنا تجھ سے چاہتاہوں کہ وہ اگر اپنے آپ آجائیں تو اِس پرمجھ سے ناراض نہ ہونا ، کیونکہ وہ تیرے اور میرے دونوں کے باپ کی جگہ ہیں ، اجنبی آدَمی ( بھی کسی تقریب میں)بے بُلائے آجائیں تو اُن کو نکالنا بد تمیزی ہے نہ کہ باپ کو ( کہ تایا باپ ہی کے قائم مقام ہوتا ہے) ، غَرَض جھوٹے سچے فقرے بتاکر دونوں کو راضی کرے کہ اِس پر بھی ثواب پائے گا۔زید اپنی بہن کو یہ کلمہ ” میں اُن کو نہ بُلاؤں گا “ کہنے سےمُراد یہ رکھے کہ میں خُود اُن کو بُلانے نہ جاؤں گا ، اگرچہ آدَمی یاخط بھیج دوں گا ، ( اور تایا کے) ” آپ چلے آنے “ سے یہ مُراد لے کہ وہ اپنے پاؤں سے چلے آئیں نہ یہ کہ میں اُٹھاکر لاؤں ، دو رُخی بات کہے۔ جھوٹے سچے ” فقرے “ سے مُرادجس کاظاہرجھوٹ اورمُرادی معنیٰ سچ ( جسے عربی میں ” توریہ “ کہتے ہیں)۔ حدیث میں فرمایا : اِنَّ فِي الْمَعَارِيضِ لَمَنْدُوحَةً عَنِ الْكَذِبِ۔یعنی بیشک اِشاروں میں گُفتگوکرنےمیں جُھوٹ سے آزادی ہے۔