Book Name:Sila Rehmi
ہوجاتی ہے اور وَقْت گُزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دُوریاں اس قدر پُخْتَہ ہو جاتی ہیں کہ برسہابرس تک فَرِیْقَیْن ایک دوسرے سے جُدا رہتے ہیں۔ ” حالانکہ کوئی ہمارے یہاں شریک نہ ہوا ہو تو اُس کے بارے میں اچّھا گمان رکھنے کے کئی پہلو نکل سکتے ہیں ، مَثَلًا وہ نہ آنے والا بیمار ہو گیا ہو گا ، بُھول گیا ہو گا ، ضَروری کام آپڑ اہو گا ، یا کوئی سخت مجبوری ہو گی ، جس کی وضاحت اس کے لئے دُشوار ہو گی وغیرہ وغیرہ ۔وہ اپنی غیر حاضِری کا سبب بتائے یا نہ بتائے ، ہمیں حُسنِ ظن رکھ کر ثواب کمانے اور جنّت میں جانے کا سامان کرتے رہنا چاہیے۔
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے : حُسْنُ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَۃِ یعنی حُسنِ ظَن عُمدہ عِبادت ہے۔ ( ابوداوٗد ج۴ ص۳۸۷ حدیث ۴۹۹۳)مشہور مُفَسِّر حکیمُ الْاُمَّت مُفْتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : مُسلمانوں سے اچّھا گُمان کرنا ، ان پر بدگُمانی نہ کرنا یہ بھی اچّھی عبادات میں سے ایک عبادت ہے۔
( مِراٰۃُ المَناجِیح ج۶ ص ۶۲۱)
اوربِالفرض اگر ہماراکوئی رشتے دار سُستی کے سبب یا کسی بھی وجہ سے یاجان بُوجھ کر ہمارے یہاں نہیں آیا ، یا ہمیں اپنے یہا ں مَدعو نہیں کِیا ، بلکہ اس نے کُھلَّم کُھلّا ہمارے ساتھ بد سُلُوکی کی تب بھی ہمیں حوصلہ بڑا رکھتے ہوئے تعلُّقات برقرار رکھنے چاہئیں ، حضرت اُبَی بِن کَعب رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ سلطانِ دوجہان ، شَہَنشاہِ کون ومکان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عظیمُ الشَّان ہے : جسے یہ پسند ہوکہ اُس کے لیے ( جنّت میں)مَحل بنایا جائے اوراُس کے دَرَجات بُلند کیے جائیں ، اُسے چاہیے کہ جو اُس پرظُلم کرے ، یہ اُسے مُعاف کرے اورجو اُسے محروم کرے ، یہ اُسے عطا کرے اورجو اُس سے قَطعِ تَعلُّق کرے یہ اُس سے ناطہ ( یعنی تعلُّق)جوڑے۔ ( اَلْمُستَدرَک ، ۳ / ۱۲ ، الحدیث ۳۲۱۵)