Book Name:Jazbati Pun ky Nuqsanat

آیتِ کریمہ میں موجود لفظِ بَطَرًا کی وَضاحت

پیارے اسلامی بھائیو!  اس آیتِ کریمہ میں لفظ استعمال ہوا ہے : بَطَرًا ۔ یہ بڑا قابِلِ غور لفظ ہے۔ امام رَاغِبْ اَصْفَہانی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اس لفظ کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اَلْبَطَرُ دَہَشٌ بَطَر مَدْہَوشِی کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ کون سی مدہوشی؟ یَعْتَرِی الْاِنْسَانَ مِنْ سُوْ ءِ  اِحْتِمَالِ النِّعْمَۃِ یعنی وہ مدہوشی کی کیفیت جو نعمت سے متعلق بُرا اِحْتِمال جما لینے کی وجہ سے طاری ہوتی ہے۔ ([1])

مثال کے طور پر *کوئی مالدار ہے ، وہ سمجھ لے کہ میں مال و دولت کے ذریعے سب کچھ حاصِل کر سکتا ہوں *جس کو طاقت کی نعمت ملی ہے ، وہ سمجھے کہ میں طاقتور ہوں ، کس میں ہمَّت ہے جو مجھے نقصان پہنچا سکے؟ *کوئی ذہین طالبِ عِلْم ہے ، وہ یہ گمان کر لے کہ میں تَو ذہین ہوں ، مجھے سبق یاد کرنے کی ، محنت کرنے کی ضرورت نہیں۔

 یُوں جب آدمی نعمت سے متعلق بُرا اِحْتِمال جماتا ہے تو یہ گمان اُس کے شُعُور کو ڈھانپ لیتا ہے ، اس وقت اُس پر غنودگی کی ایک کیفیت طاری ہوتی ہے ، اس کے ہاتھ ، پیر ، جسم کے تمام اَعْضا پُوری طرح کام کر رہے ہوتے ہیں مگر اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت گویا سَو جاتی ہے ، وہ اپنے طَور پر سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں بڑی عقل مندی سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کر رہا ہوں مگر اس وقت اُس کے شُعُور پر ، اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر جذبات کا ، نعمت سے متعلق بُرے گمان کا قبضہ ہوتا ہے ، یہ وہ غنودگی کی ، مَدْہَوشِی کی کیفیت ہے جسے عربی میں بَطَر کہا جاتا ہے اور یہی وہ کیفیت ہے جو جدید عِلْمِ نفسیات کی روشنی میں جذباتی پَن کے زُمْرَے میں آتی ہے۔  


 

 



[1]...مفردات الفاظ القرآن ، کتاب : الباء ، صفحہ : 61۔