Book Name:Sharm O Haya Kesy Kehty Hain
حضرت اُمِّ خَلَّاد رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نکلیں ، لیکن اس وقت بھی چہرے پر نقاب ڈالنا نہیں بُھولیں ، چہرے پر نقاب ڈال کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا : آپ اس وقت بھی باپردہ ہیں؟اس پر بی بی اُمِّ خَلَّاد رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کہنے لگیں : میں نے اپنا بیٹا ضرور کھویا ہے ، مگر اپنی حیا نہیں کھوئی ، وہ اب بھی باقی ہے۔ ([1])یہ بھی اسی حیا پَرْوَر ماحول کا نتیجہ تھا ۔
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پىارے پىارے اسلامى بھائىو!معلوم ہوا! سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے ماننے والوں میں شرم و حیا پر مبنی زبردست ماحول بنایا۔ آج ہم دیکھتےہیں کہ شرم وحیا کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ، وہ لوگ جو شرمیلے ہوں ، فطرتی طور پر حیا ان میں زیادہ ہو اور وہ اس کا اظہار کریں تو انہیں طرح طرح کے طعنے دیئے جاتے ہیں ، کوئی کہتا ہے : میاں! کیا لڑکیوں کی طرح شرما رہے ہو؟ کوئی کہتا ہے : “ یہ تو لڑکیوں سےبھی زیادہ شرمِیلا ہے “ کسی کے منہ سے اس طرح کے الفاظ نکلتے ہیں : “ اس کی تو لڑکیوں والی عادتیں ہے “ جبکہ کوئی اس کے بارے میں یوں کہتا دکھائی دیتا