Book Name:Tabrukat Ki Barakat

کے گھوڑے کے قدموں کے نشان سے مٹی کی ایک مٹھی بھر لی ، پھر اسے بچھڑے میں ڈال دیا ، اسی سبب سے یہ بچھڑا زِندہ ہو کر بولنے لگا۔ ([1])

دیکھئے! اے عاشقانِ رسول! قرآنِ کریم نے حضرت جبریل  عَلَیْہِ السَّلام  کے گھوڑے کے پاؤں سے لگنے والی مٹی کے لئے لفظِ “ اَثَر “ اِسْتِعْمال کیا۔ اور سُبْحٰنَ اللہ! کمال دیکھئے! حضرت جبریل  عَلَیْہِ السَّلام  اللہ کے پیارے ہیں ، وہ بے شک بابرکت ہیں لیکن واسطوں کی گنتی کیجئے : حضرت جبریل  عَلَیْہِ السَّلام  اللہ کے پیارے ، ان سے گھوڑے کو نسبت ہوئی ، گھوڑے کے قدموں سے مٹی کو نسبت ہوئی ، اس مٹی کے اندر اللہ پاک نے اتنی تاثیر پیدا کر دی کہ وہ مٹی لگنے سے بےجان بچھڑے میں جان پڑ گئی ، وہ بولتا نہیں تھا ، بولنے لگا۔ اللہ اکبر! پتا چلا تَبَرُّکات زِندگی بخش ہوتے ہیں ، ان کی برکت سے مردہ دِل زِندہ ہوتے ہیں ، مردہ قوموں کو عروج ملتا ہے اور اللہ پاک تَبَرُّکات کے اندر مُردہ شے میں جان ڈال دینے کی بھی طاقت پیدا کر دیتا ہے۔

یہ شان ہے خدمت گاروں کی

اے عاشقانِ رسول! اس جگہ ایک اَوْر ایمان افروز نکتہ ہے۔ حضرت جبریل  عَلَیْہِ السَّلام  جن کے گھوڑے کے قدموں سے لگنے والی مٹی بےجان میں جان ڈالنے کا اَثَر رکھتی ہے ، یہ جبریل  عَلَیْہِ السَّلام  کون ہیں؟ فرشتوں کے سردار اور ہمارے پیارے نبی ، مُحَمَّد عربی  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کے خادِم۔ اب ہم کیوں نہ کہیں :

چاہیں تو اشاروں سے اپنے کایا ہی پلٹ دیں دُنیا کی

یہ شان ہے اُن کے غلاموں کی سرکار کا عالم کیا ہو گا


 

 



[1]   تفسیر صراط الجنان، پارہ:16، سورۂ طٰہٰ، تحت الآیۃ:95، جلد:6، صفحہ:235، بتغیر۔