Book Name:Tabrukat Ki Barakat

صبح کو چلتے ، سارا دِن سَفَر کرتے ، شام کو رُکتے تو دیکھتے جہاں سے چلے تھے ، وہیں کھڑے ہیں۔ 40سال یہ لوگ یہیں قَیْد رَہے۔ ([1]) آخر ان کی یہ قید ختم ہوئی ، اللہ پاک نے انہیں بَیْتُ الْمَقْدَس جانے کا حکم دیا اور وہاں جانے کے دو۲ آداب ارشاد ہوئے ، فرمایا :

وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا (پ : 1 ، بقرہ : 58)

ترجمہ کنز الایمان : اور دروازہ میں سجدہ کرتے داخل ہو ۔

یعنی بیت المقدس میں داخِل ہوتے وقت سجدۂ شکر کرو! یا یہ معنی ہے کہ شہر میں جھک کر اَدَب سے داخِل ہونا۔ دوسرا حکم یہ ہوا کہ

وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْؕ-  (پارہ : 1 ، سورۂ بقرہ : 58)                

ترجمہ کنز الایمان : اور کہو ہمارے گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے

اس جگہ ایک سُوال ہے : توبہ کہیں بھی کی جائے ، اللہ پاک سنتا ، جانتا ، دیکھتا ہے ، پھر بنی اسرائیل کو بَیْتُ الْمَقْدَس میں بھیج کر ، دروازے میں داخِل ہوتے وقت گُنَاہوں کی مُعَافِی مانگنے اور شہر میں اَدَب کے ساتھ جھک کر داخِل ہونے کا حکم کیوں دیا گیا؟ اس کے جواب میں عُلَما فرماتے ہیں : بَیْتُ الْمَقْدَس بابرکت جگہ ہے ، یہاں انبیائے کرام  علیہم السَّلام  اور اَوْلیائے کرام کے مزارات ہیں۔ ([2]) مَعْلُوم ہوا اللہ کے نیک بندوں کے مزارات کے پاس ، ان کی برکت سے توبہ جلد قبول ہوتی ہے ، اس سے یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ جہاں انبیائے کرام  علیہم السَّلام  اور اولیاء کے مزارات ہوں اس شہر اور خطۂ زمین کا بھی اَدب کیا جائے گا۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                                               صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد


 

 



[1]   عجائب القرآن، صفحہ:32 خلاصۃً۔

[2]   تفسیر نعیمی،  پارہ:1، سورۂ بقرہ،  تحت الآیۃ:58، جلد:1، صفحہ:410 خلاصۃً۔