Book Name:Piyaray Aaqa Ki Piyari Adayen

جبکہ حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیہ فرماتے ہیں : اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے نبی اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں فرماتےجو کچھ فرماتے ہیں وہ ربّ کی وحی ہوتی ہے ، اِس کے دو(2) مطلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ حضور عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے کو بَحرِ تَوحید(تَوحید کے سَمُندر) میں اِس طرح فنا(گم) کردیا ، کہ جو بات اُن کے منہ سے نکلتی ہے ، زبان تو محبوب کی ہوتی ہے ، مگر کلام ربّ کا ہوتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جو بھی بولتے ہیں وہ یا تو قرآن ہوتا ہے یا حدیث اور دونوں وحی ہیں۔ ہاں! قرآن وَحیِ جَلی  ہے اور حدیث وَحیِ خَفی ہے۔ ([1])

پیارے پیارےاسلامی بھائیو!ہمارے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حَسِین اداؤں میں سےایک پیاری ادا یہ بھی ہے کہ آپ گفتگو پُر وقار انداز میں ٹھہر ٹھہر کر فرماتے تھے ، چنانچہ

اُمُّ المُوْمِنِیْن حضرت عائشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا فرماتی ہیں : پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت تیزی کے ساتھ جلدی جلدی گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر کلام فرماتے تھے ۔ کلام اتنا صاف اور واضح ہوتا تھا کہ سُننے والے اُس کو سمجھ کر یاد کر لیتے تھے۔ اگر کوئی اَہَم بات ہوتی تو کبھی کبھی تین(3)تین(3)مرتبہ دُہرا دیتے تاکہ سُننے والےاُس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں۔ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ بِلا ضرورت گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ اکثر خاموش ہی رہتے تھے۔ (الشمائل المحمدیۃ ، باب کیف کان کلام رسول اللہ ، ص۱۳۴۔ ۱۳۵ ، حدیث : ۲۱۳۔ ۲۱۴۔ ۲۱۵)

گفتگو کےمتعلق چند اہم نکات


 

 



[1]     شان حبیب الرحمٰن ، ص ۲۲۷ ، ملتقطاً