Book Name:Piyaray Aaqa Ki Piyari Adayen

کلام سے خاموشی ورنہ حُضورِ اقدس (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کی زبان شریف اللہ پاک کے ذِکر میں تَر رہتی تھی ، لوگوں سے بِلاضرورت کلام نہیں فرماتے تھے ، یہ ذِکْر ہے جائز کلام کا ، ناجائز کلام تو عمر بھر زبان شریف پر آیا ہی نہیں۔ جھوٹ ، غیبت ، چغلی وغیرہ ساری عمر شریف میں ایک بار بھی زبان مبارَک پر نہ آیا۔ حضور(صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) سراپا حق ہیں ، پھر آپ تک باطل کی رسائی کیسے ہو؟آم کے درخت میں جامن نہیں لگتے ، بار دار (پھل لگے)درخت ، خار دار(کانٹے والے درخت)نہیں ہوتے۔ بلکہ آپ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ )نےخودفرمایا ہے : جو بھی کلام کرے تو خیر ( یعنی اچھا)کلام کرے ورنہ خاموش رہے۔ (امیرُ المؤمنین)حضرت ابوبکر صِدِّیْق(رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) (عاجزی کرتے ہوئے)فرماتے ہیں : کاش!میں فضول بات کہنے سےگونگا ہوتا۔ (مرآۃ المناجیح ، ۸ / ۸۱ بتغیر قلیل)

پیارے پیارےاسلامی بھائیو!آپ نے سُنا کہ پیارےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموشی کو کس قدر پسند فرماتے تھے کہ بِلا ضرورت کوئی کلام نہ فرماتے۔ اگر اپنی مبارَک زبان کو حَرَکت دیتے تو اللہ پاک کے ذِکْر کے لئے ، اُس کےاحکامات کو بیان کرنے کےلئے ، اپنی ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُنَّ اَجْمَعِیْن کی دل جوئی کے لئے ، اپنے پیارے صحابہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی تربیت فرمانے کےلئے ، لوگوں کو نیکی کا حکم دینےاور بُرائی سےمنع کرنے کےلئے ، لہٰذا ہمیں بھی چاہئےکہ فضول بولنے سے ہر دم بچتے رہیں۔ آئیے!فضول گفتگو سے بچنےکےفضائل پر 2 فرامین ِ مصطفےسُنتے ہیں ، چنانچہ

                             (1)اِرشادفرمایا : جو اللہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ، اُسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ ( مسلم ، کتاب الایمان ، باب الحث علی اکرام الجار...الخ ، ص ۴۸ ، حدیث : ۱۷۴)

                             (2)اِرشادفرمایا : بندہ اُس وقْت تک ایمان کی حقیقت نہیں پاسکتا ، جب تک اپنی زَبان کو(فُضول باتوں سے) روکے نہ رکھے۔ (معجم اوسط ، ۵ / ۵۵ حدیث : ۶۵۶۳)