Book Name:Hazrt e Abduallah Bin Mubbarak Or Ulama ki Khidmat

کریں تو الله کریم کی رِضا کیلئے ہی کریں ۔

بنا دے مجھ کو اِلٰہی خُلوص کا پیکر

قریب آئے نہ میرے کبھی رِیا یارب

(وسائلِ بخشش مرمم ، ص ۷۸)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                           صَلَّی اللّٰہُ  عَلٰی مُحَمَّد

      اس حکایت سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضرت عبدالله بن مبارکرَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہکودینِ اسلام اور دِینی طلباء  اور علماء سے بڑی محبت تھی ، جس کامنہ بولتاثبوت آپ  کا اس نوجوان طالب ِعلم  کاقرض اد اکرنے کا واقعہ ہے ۔ جس طرح حاتم طائی کی سخاوت مشہورتھی ، اسی طرح طبقہٴ علماء میں حضرت عبداللهبن مبارک رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ کی سخاوت مشہورتھی ، آپ علماء  سے بڑی محبت فرماتے اوراپنا مال علماء کیلئے خرچ کرتے تھے۔ بعض روایات میں تو آتا ہے کہ آپ کاروبار کرتے ہی اس لیے تھے کہ حاصل ہونے والے نفع کو علمائے کرام پر خرچ فرمائیں۔ آئیے!حضرت عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے علمائے کرام پر خرچ کرنے سے متعلق کچھ روایتیں سنتے ہیں : چنانچہ

 (1)تجارت کامقصد ہی علماء کی خدمت کرنا ہے

       حضرت عبدالله بن مبارکرَحمَۃُ اللہِ عَلَیہِ خود اپنے بارے میں  فرماتےہیں : میری تجارت کی غرض ہی علماء وصوفیاء اورمشائخِ کرام کی مددکرناہے ، ایک مرتبہ آپ نے حضرت فضیل بن عیاض رَحمَۃُ اللہِ عَلَیہِ سےفرمایا : لَوْلَااَنْتَ وَاَصْحَابُکَ مَااتَّجَرْتُ یعنی اگرتم اور تمہارے ساتھی نہ ہوتے تو میں کبھی تجارت نہ کرتا۔ (صفۃالصفوة ، ۲ / ۱۲۶)