Book Name:Hazrt e Abduallah Bin Mubbarak Or Ulama ki Khidmat

چند منزل بعدحضرت عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے اس کی ملاقات ہو گئی ، آپ نے فرمايا : کہاں تھے؟ ميں نے تمہيں مسافر خانے ميں نہيں ديکھا۔ عرض کی : حضور! قرض کے سبب قيد خانے ميں تھا۔ فرمايا : پھرتمہيں آزادی کيسے ملی؟عرض کی : مجھے معلوم نہيں کہ کس نے ميرا قرض ادا کر ديا جس کی وجہ سے مجھے رہائی مل گئی۔ فرمايا : اے نوجوان!خدا کا شکر ادا کرو ، اللہ پاک نے کسی کو تيرا قرض ادا کرنے کی توفيق دے دی ہو گی۔ اس نوجوان کو اِس حُسنِ سُلوک کا پتا اس وقت چلا جب آپ کا وصال ہو چکا تھا۔

(تاريخ بغداد ، رقم۵۳۰۶ ،  عبداللہ بن مبارک۔ ۔ الخ  ،  ۱۰ / ۱۵۸ ،  ملخصاً)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                           صَلَّی اللّٰہُ  عَلٰی مُحَمَّد

      پیارے پیارے اسلامی بھائیو!بیان کردہ واقعہ سےدوباتیں معلوم ہوئیں۔

      پہلی بات تو یہ کہ بندہ جب بھی کوئی نیک عمل کرے ، کسی غریب کی مدد کرے ، کسی حاجت مند کی  حاجت روائی کرے تو صرف اورصرف اللهکریم کی  رِضا اورثواب کےحصول کے لئے کرے ، جیسا کہ بیان کردہ واقعہ میں  حضرت عبدالله بن مبارک رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ  نےعلمِ حدیث  حاصل  کرنے والے اس نوجوان طالبِ علم کاقرض  ادا کیا اورساتھ ہی اس قرض دار کو  نصیحت کی کہ میری زندگی میں اس نوجوان کو اس بات کا علم نہ ہوکہ میں نے اس کاقرض ادا  کیاہے ، اے کاش کہ  ہمیں بھی ایسی سوچ و فکر نصیب ہوجائے کہ ہم بھی  جب کوئی نیک  عمل کریں توصرف اورصرفالله کریم کی رِضا  کے لئے کریں ، جب بھی  کسی کی حاجت روائی کریں  یا کسی پریشان حال کی مدد