Book Name:Imam Jafar Sadiq Ki Betay Ko Naseehat

حنفیوں کے امام ، حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ   رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ   جو خود علم کے سمندر تھے آپ بھی حصولِ علمِ دین کیلئے دو سال تک حضرت امام جعفر صادق   رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ    کی صحبتِ بابَرَکت میں رہے۔ حضرت امامِ اعظم نعمان بن ثابت   رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ   خود فرماتے ہیں : لَو لَاالسَّنَتَانِ لَہَلَکَ النُّعْمَانُ اگر میری زندگی میں یہ دوسال (جو میں نے امام جعفر صادق   رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  کی خدمت میں گزارے) نہ ہوتے تونعمان ہلاک ہوگیا ہوتا۔ (آدابِ مرشدکامل ، ص۱۷۰)  

ابنِ آدم پر اللہ پاک کے احسانات

      آئیے! اسی بارے میں حضرت امام جعفر صادق   رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ   کا ایک واقعہ سنتے ہیں : چنانچہ ایک بزرگ کابیان ہےکہ میں ، حضرتِ سیِّدُناابنِ ابولیلیٰ اورحضرتِ سیِّدُناامامِ اعظم ابوحنیفہرَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہ کے ساتھ حضرتِ سیِّدُناجعفربن محمدصادق   رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ   کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرتِ سیِّدُنا امام جعفربن محمدصادق   رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ   نے حضرتِ سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ   رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ   سے پوچھا : آپ کا نام کیا ہے؟ عرض کی : نعمان۔ پوچھا : اےنعمان!کیا آپ نے اپنے سر کو ناپا ہے؟عرض کی : میں اپنے سر کو کیسے ناپ سکتا ہوں؟ پھر پوچھا : کیا تم آنکھوں کی نمکینی ، کانوں کی کڑواہٹ ، نتھنوں کی حرارت اور ہونٹوں کی مٹھاس کے بارے میں کچھ جانتے ہو؟عرض کی : نہیں۔ پوچھا : تم وہ کلمہ جانتےہوجس کااوّل کفراورآخرایمان ہے؟حضرتِ سیِّدُناابنِ ابولیلیٰ  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ   نے عرض کی : اےاِبْنِرَسُولُاللہ!جن چیزوں کےبارےمیں آپ نےپوچھاہےان کے بارے میں ہمیں آگاہ کیجئے۔ فرمایا : میرےدادا(امام زین العابدین رضی اللہ عنہ )سےمروی ہےکہ حضورنَبیّ پاکصَلَّی اللہُ   عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا : اللہ پاک نے اپنے فضل واحسان سے نمکینی  ابنِ آدم کی آنکھوں میں رکھی  کیونکہ یہ دونوں چربی کے ٹکڑے ہیں ، اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پگھل جاتے۔

       اِبْنِ آدم پر فضل واحسان اور مہربانی کرتے ہوئےاللہ پاک نے کڑواہٹ  اس کے کانوں میں رکھی جو کیڑے مکوڑوں کے لئے رکاوٹ ہے کیونکہ اگر کوئی کیڑا کان میں داخل ہوجائے تو دماغ تک پہنچ جائےلیکن جب کڑواہٹ چکھتا ہے تو نکل بھاگتا ہے۔

               اللہ پاک نے اپنے فضل واحسان اور رحمت سے  حرارت اِبْنِ آدم کے نتھنوں میں رکھی جس سے وہ بُو سُونگھتا ہے اگر یہ نہ ہو تو دماغ بدبُودار ہو جائے۔

       اللہ پاک نے اِبْنِ آدم پر مہربانی اور فضل واحسان کرتے ہوئے مٹھاس اس کے ہونٹوں میں رکھی  جس کے ذریعے وہ ہر چیز کا ذائقہ چکھتا ہے اور لوگ اس کی گفتگو کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ (الفوائد لتمام الرازی ،  ۱ /  ۱۱۱  ،  حدیث : ۲۶۲)

       امیراہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہٹھیک فرماتے ہیں :

مُفْلسی کا میں کیوں کروں شِکوہ