Book Name:Imam Jafar Sadiq Ki Betay Ko Naseehat

کے غم میں آنسو بہائے جاتے ہوں۔ ایسی پاکیزہ سوچ اُس گھر میں ہی بن سکتی ہے جس گھر میں نمازوں کا اِہتمام ہو ، ایسی پاکیزہ سوچ اُس گھر میں ہی بن سکتی ہے کہ جس گھر میں تلاوتِ قرآن کی آوازیں آتی ہوں ، ایسی مدنی سوچ اُس گھر میں ہی بن سکتی ہے کہ جس گھر میںاللہ ورسول کی نافرمانی کوبُراسمجھا جاتاہو ، ایسی اعلیٰ  سوچ اُس گھر میں ہی بن سکتی ہے جس گھر میں پردے کا اِہتمام ہو ، ایسی اچھی سوچ اُس گھر میں ہی بن سکتی ہے جس گھر میں جھوٹ سے نفرت اورسچ بولنے کو اچھا سمجھا جاتاہو۔

       اسی سوچ کا اثرتھا کہ حضرت امام جعفر صادق   رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ   بچپن سے ہی خوفِ خدا سے سرشار تھے۔ اور ان کی شان یہ ہے کہ انہیں دیکھ کر دوسروں میں خوفِ خدا پیدا ہو جاتا۔ آپ کے بارے میں منقول ہے کہ  رات کو قبرستانوں میں تشریف لے جایا کرتے اور فرماتے کہ اے قبر والو! کیا بات ہے کہ میں تم لوگوں کو پکارتاہوں تو تم لوگ کوئی جواب نہیں دیتے ہو؟پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ  عَلَیْہ فرماتے : افسوس ! کہ میرے اور تمہارے درمیان ایسا حجاب(پردہ) ہوگیا ہے۔ لیکن آئندہ میں بھی تمہارے ہی جیسا ہوجانے والا ہوں۔ آپ یہی کلمات فرماتے رہتے یہاں تک کہ صبحِ صادق نمودار ہوجاتی اور آپ نمازِ فجر کے لیے مسجدمیں تشریف لے جاتے۔ (آئینہ عبرت ص۶۴)

میں کس گنتی میں آتا ہوں؟

       منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا داؤدطائی رَحْمَۃُ اللہِ  عَلَیْہ نے حضرت امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ  عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی : آپ چونکہ اہل ِ بیت میں سے ہیں ، اس لئے مجھے کوئی نصیحت فرمائیں۔ لیکن وہ خاموش رہے ۔ جب آپ نے دوبارہ عرض کی کہ اہل ِ بیت ہونے کے اعتبار سے اللہ پاک نے آپ کو جو فضیلت بخشی ہے ، اس لحاظ سے نصیحت کرنا آپ کے لئے ضروری ہے ۔ یہ سُن کر امام جعفرصادق رَحْمَۃُ اللہِ  عَلَیْہ نے فرمایا : مجھے تو خود یہ خوف لاحِق ہے کہ کہیں قیامت کے دن میرے جدّ ِ اعلیٰ(یعنی رسولِ اکرم ، نورِمجسّم    صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ    ) میرا ہاتھ پکڑ کر یہ نہ پوچھ لیں کہ تُو نے خود میری پیروی کیوں نہیں کی ؟ کیونکہ نجات کا تعلق نسب سے نہیں اعمال ِ صالحہ پر موقوف ہے ۔  یہ سُن کر حضرت داؤو طائیرَحْمَۃُ اللہِ  عَلَیْہ کو بہت عبرت ہوئی کہ جب اہل ِ بیت کے خوف ِ خدا کا یہ عالم ہے تو میں کس گنتی میں آتا ہوں ؟(خوفِ خدا ، ص۱۱۱)

       امیراہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اِنتہائی عاجزی کرتے ہوئے ، اپنے مالک و مولیٰ جَلَّ جلالہ کی ناراضی کو سامنے رکھتے ہوئے ، حشرکی گرمی کا تصورجماتے ہوئے ، دوزخ کے خوف سے اپنے آپ کو ڈراتے ہوئےخاکِ طیبہ کا واسطہ دیتے ہوئے ، اپنی بخشش کا سُوال لیے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں :

کس کے در پر میں جاؤں گا مولا                               گر تُو ناراض ہوگیا یارب

ہائے! حُسنِ عمل نہیں پلّے                                     حَشْر میں میرا ہوگا کیا یارب

گرمیِ حَشْر ، پیاس کی شدّت                                    جامِ کوثر مجھے پِلا یارب

خوف دوزخ کا آہ! رحمت ہو                                   خاکِ طیبہ کا واسطہ یارب

میرا نازُک بَدَن جہنّم سے                                       از طُفیلِ رضا بچا یارب