Book Name:Sharm-o-Haya Social Media Ka Ghalat Istimal

پردگی،بے حیائی اوربدنگاہی کی تباہ کاریوں نے ہمارے معاشَرے کو تباہی و بربادی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے۔

مَعَاذَ اللہ حالات اب اِتنے سنگین ہوچکے ہیں کہ پردہ دار گھرانوں  کو پُرانی سوچ والے اور بدلتے وَقْت کے تقاضوں  کے مطابق نہ چلنے والے کہہ کر اُن پر طنز کے تیر برسائے جاتے ہیں جبکہ  دوسری طرف بے پردَگی و فَحاشی کو فَروغ دینے والوں کو  خوب پَذیرائی سے نوازا جاتا ہے،پردے کرنے والوں اور والیوں کو مُلّا اور مُلّانی کہہ کر اُن کا مَذاق اُڑایاجاتا ہے،اگر کوئی عاشقِ رسول سر پرعمامہ شریف اور چہرے پر سنتِ مصطفے سجائے کبھی کسی تقریب میںچلا جائے اور بدنگاہی سے بچے تو بے چارے کو طرح طرح کے طعنے دئیے جاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے،اُتارواِس عمامے کو!کوئی بولتا ہے،بس رہنے دو!ہمیں معلوم ہے! تم بَہُت پردہ کرنے والے ہو،اسی طرح باپردہ اسلامی بہن کو یوں طعنہ دیا جاتا ہے کہ دنیا بَہُت تَرَقّی کر چکی ہے اور تم نے کیا یہ پُرانا انداز اپنا رکھا ہے!،دِین میں اِتنی بھی سختی نہیں ہے”فقط دِل کا پَردہ ہونا چاہئے“مَعَاذَاللّٰہ۔

”فَقَط دِل کا پردہ ہونا چاہئے“ایسا کہنا کیسا؟

شَیخِ طریقت،امیرِاہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادِرِی رَضَوِی ضیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے سُوال ہوا:”فَقَط دل کا پردہ ہونا چاہئے“اِس کی کیا حقیقت ہے؟اِرْشاد فرمایا:یہ شیطان کا بَہُت بڑا اور بُرا وار ہے اوراِس قول میں اُن قُرآنی آیات کاا ِنکار ہے جن میں ظاہِری جسم کو پردے میں چُھپانے کا حُکم دیا گیا ہے،مَثَلاً

پارہ22سُوْرَۃُ الْاَحْزاب آیت نمبر33میں فرمایا گیا:

وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى ۲۲،الاحزاب:۳۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اپنے گھروں  میں  ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی