Book Name:Sharm-o-Haya Social Media Ka Ghalat Istimal

               کسی بُزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی جس کا خُلاصہ ہے:جب گناہ کرتے ہوئے تجھے آسمان و زمین میں سے کسی سے شرم و حيا نہ آئے تو اپنے آپ کو چَوپایوں میں شمار کر۔

علّامہ علی قاری رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ حیا کے بارے میں فرماتے ہیں:وَھُوَ خُلُقٌ یَّمْنَعُ الشَّخْصَ مِنَ الْفِعْلِ الْقَبِیْحِ بِسَبَبِ الْاِیْمَانِیعنی حیا و ہ عادت ہے جو ایمان کے سبب آدَمی کو بُرے کاموں سے روک دے۔

(مرقاۃ المفاتیح،۱/ ۱۴۰، تحت الحدیث)

حیا کے اَحکام

    بخاری شریف کی شرح لکھنے والے حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہفرماتے ہیں:حیا کبھی فرض و واجِب ہوتی ہے جیسے کسی حرام و ناجائز کام سے حَیا کرنا،کبھی مُسْتَحَب جیسے مکروہِ تَنْزِیْہِی سے بچنے میں حيا اور کبھی مُباح(یعنی جائز کام)جیسے کسی مُباحِ شَرْعی(یعنی وہ کام جسے شریعت نےجائز قرار دیا ہو اس) کے کرنے سے حیا۔(نزہۃ القاری،۱/۳۳۴)

حیاکا ماحول سے تَعَلُّقْ

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!حیا کو عام کرنے میں ماحول اور تربیَت کا بَہُت عمل دَخل ہے۔ حیاکی خوشبو سےمعمورماحول نصیب ہوجانے کی صورت میں حیا کو خوب نِکھار ملتا ہے جبکہ بے حیا لوگوں کی صحبت دل اور نگاہ کی پاکیزگی چھین کر بے شَرْم بنادیتی ہے،پھر بندہ بے شمار غیر اَخلاقی اور ناجائز کاموں میں مُبتَلا ہوجاتا ہے۔یہ حیا ہی کی نعمت  تو تھی جو بُرائیوں اور گناہوں سے روکتی تھی۔ جب حیا ہی نہ رہی تو اب بُرائی سے کون روکے؟ بَہُت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بدنامی کے خوف سے شرما کر بُرائیاں نہیں کرتے مگر جنہیں بدنامی کی پروا نہیں ہوتی ایسے بے حیا لوگ ہر گناہ کر