Book Name:Sharm-o-Haya Social Media Ka Ghalat Istimal

اگرچہ سوشل میڈیا کی بدولت ایک جگہ بیٹھ کر پوری دنیا میں کہیں بھی رابطہ  کیا جا سکتاہےمگر اپنوں سے دوریاں بڑھ گئی ہیں ،والد،والدہ اور بیٹا اپنے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر مصروف ہوتے ہیں اور ایک دوسرےکو وَقْت نہیں دے پاتے۔

(5)معاشی نقصان:

بار بار پیکج وغیرہ کی مد میں بہت سے پیسے برباد ہوتے ہیں۔یہی وقت اور پیسہ درست استعمال کر کے معاشی طور پر خود کو بہت مضبوط کیا جاسکتا ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنے وقت کی قدر نصیب فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ(ماہنامہ فیضان مدینہ،اکتوبر2017،ص۳۳)

اے عاشقانِ رسول!آپ نے سنا کہ سوشل میڈیا کی کیسی کیسی تباہ کاریاں ہیں اور اس کے سبب معاشرے میں کیسی کیسی خرابیاں سَراُٹھارہی ہیں۔لہٰذاعقلمندی اسی میں ہے کہ کام کاج سے فراغت کے بعد سوشل میڈیا پر وَقْت ضائع کرنے کے بجائے اپنے گھر والوں کو وَقْت دیا جائے،عبادت و ریاضت،ذکر و دُرود،فکرِ آخرت،والدَین کی فرمانبرداری،اولاد کی مَدَنی تربیت،مَدَنی کاموں میں مصروفیت،امیرِاَہلسُنّتدَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اور مکتبۃ المدینہ کی کتابوں کا مُطالَعَہ کرنے میں وَقْت گزارا جائے۔ہاں!جن کے لئے واقعی سوشل میڈیا کا استعمال ضروری ہو مثلاً تنظیمی ذمہ داران اسی طرح اہلِ عِلْم حضرات وغیرہ تو اب انہیں سوشل میڈیا استعمال کرنے میں حرج نہیں۔مگر یاد رہے!اس میں بھی یہی احتیاط لازم ہے جتنی ضرورت ہو صرف اتنا ہی استعمال کیا جائے، کہیں ایسا نہ ہو شیطان اس کو بنیاد بناکر غیر ضروری یا غلط استعمال کی طرف لے جائے۔

اب سُوال یہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے ذمہ داران سوشل میڈیا کے ذریعے کس طرح فائدے حاصل کرسکتے ہیں اور کس طرح اس کی مدد سے دین کی خدمت کی جاسکتی ہے۔تو آئیے!سوشل میڈیا