Book Name:Moashary Ki Rasumaat

صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرت علّامہ مولانامفتی محمدامجدعلی اعظمیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:رسوم کی پابندی اسی حد تک کی جاسکتی ہے کہ کسی فعل ِحرام میں مبتلا نہ ہونا پڑے مگربعض لوگ اس قدر پابندی کرتے ہیں کہ ناجائز فعل کرنا پڑے تو پڑے مگر رسم کا چھوڑنا گوارا نہیں مثلاً لڑکی جوان ہے اور رسوم ادا کرنے کو روپیہ نہیں تو یہ نہ ہو گا کہ رسوم چھوڑ دیں اور نکاح کر دیں کہ سَبُکْدوش(آزاد) ہوجائیں اور فتنہ کا دروازہ بند ہوبلکہ سُود(Interest)جیسی لعنت کوگلے لگانے کے لئے تیار ہو جاتےہیں۔ (ماخوذ از بہار شریعت، ۳/ ۱۰۴ملخّصاً)

یہ شادی ہوئی یا اعلانِ جنگ؟

مزیدفرماتےہیں:شادی میں ناچ باجےکاہونابعض کےنزدیک اتناضروری اَمْر(معاملہ)ہےکہ نسبت (یعنی منگنی)کے وقت طے کر لیتے ہیں کہ ناچ لانا ہوگا ورنہ ہم شادی نہ کریں گے۔لڑکی والا یہ نہیں خیال کرتا کہ بیجاصرف(ضرورت سے زائدخرچ) نہ ہو تو اُسی کی اولاد کے کام آئے گا۔ ایک وقتی خوشی میں یہ سب کچھ کر لیا مگر یہ نہ سمجھا کہ لڑکی جہاں بیاہ کر گئی وہاں تو اب اُس کے بیٹھنے کا بھی ٹھکانا نہ رہا۔ ایک مکان تھا وہ بھی سود میں گیا اب تکلیف ہوئی تو میاں بی بی میں لڑائی ٹھنی اور اس کا سلسلہ دراز ہوا تو اچھی خاصی جنگ قائم ہوگئی، یہ شادی ہوئی یا اعلانِ جنگ۔ ہم نے مانا کہ یہ خوشی کا موقع ہے اور مدت کی آرزو کے بعد یہ دن دیکھنے نصیب ہوئے بے شک خوشی کرو مگر حد سے گزرنا اور حدودِ شرع سے باہر ہو جانا کسی عاقل کا کام نہیں۔(بہار شریعت،۲/۱۰۶)

گانے باجے

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! عموماًاكثر گھروں میں رواج ہے كہ شادی كے ایام میں رشتہ دار اور