Book Name:Moashary Ki Ghalat Rasmein Aur Tehwar

سے فیض یافْتہ،بارگاہِ رِسالت کے تعلیم و تربِیت یافتہ اَمیرُالمُؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر!جن کی بدولت برسہا برس سےجاری اس جاہلانہ اور شرمناک رَسْم کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جس طرح اَہلِ مِصر میں  دریائے نیل کو جاری رکھنے کے لئے غَلَط اِعتقاد پر مبنی بُری اورغیرشرعی رسم جاری تھی اِسی طرح موجودہ دَور میں  بھی بہت سے غَلَط قسم کے اِعتقادات(عقیدے)،تَوَھُّمات(وہم)،ناجائز رُسومات اور غیر شرعی تہواروں(Non Sharee Festivals)کی تباہ کاریوں نے معاشرے کو شریعت و سُنّت سے دُور کرکے تباہی کے قریب لاکھڑا کیا ہے۔

آئیے!چندناجائز رسومات و تہواروں کے بارے میں سنتے ہیں،چنانچہ

ماہِ صفر سے متعلق پھیلےبےبنیاد خیالات

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی کتاب”بدشگونی“میں ہے کہ نُحوست کے وہمی تصورات کے شکارلوگ ماہِ صفرکو مصیبتوں  اور آفتوں  کے اُترنے کا مہینا سمجھتے ہیں، خصوصاً اس کی ابتدائی تیرہ(13) تاریخیں جنہیں”تیرہ تیزی“کہاجاتاہےبہت منحوس تصوُّرکی جاتی ہیں۔وہمی لوگوں  کایہ ذہن بنا ہوتا ہے کہ صفر کے مہینے میں نیا کاروبار شروع نہیں  کرناچا ہئے، نقصان کا خطرہ ہے ،سفرکرنے سے بچنا چاہئےایکسیڈنٹ(Accident) کااندیشہ ہے،شادیاں  نہ کریں ،بچیوں  کی رخصتی نہ کریں  گھر برباد ہونےکاامکان ہے،ایسے لوگ بڑا کاروباری لین دین نہیں  کرتے ،گھر سےباہرآمد ورفت میں  کمی کر دیتے ہیں ، اس گمان کے ساتھ کہ آفات ناز ل ہورہی ہیں  اپنے گھر کے ایک ایک برتن کو اور سامان کو خوب جھاڑتے ہیں  ،اسی طرح اگر کسی کے گھر میں  اس ماہ میں  میت ہو جائے تواسےمنحوس سمجھتے ہیں  اور