Book Name:Makkha Mukarramah Ki Shan o Azmat

کیا ذِہْن ہے؟ کہا:پہلے پَہَل میں بلکہ دیگر قافِلے والے بھی اِن کے رونے کی کثرت سے گھبرا جاتے تھے مگر آہِستہ آہِستہ اِن کی صُحبت کی بَرَکت سے ہم پر بھی رِقّت طاری ہونے لگی اور اِن کے ساتھ ہم سب بھی مل کر روتے تھے۔حضرت سَیِّدُنا مُخَوَّل رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کہتے ہیں:اِس کے بعد میں حضرت سَیِّدُنا بُہَیْم  عِجلی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں حاضِر ہوا اوراپنے پڑوسی حاجی کے بارے میں دریافْتْ کیا تو فرمایا:بَہُت اچھا رفیق (ساتھی)تھا،ذِکْرُ اللہ اور قرآنِ کریم کی تلاوت کی کثرت کرتا تھا اور اُس کے آنسو بہت جلد بہ جایا کرتے تھے۔اللہ پاک تم کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ ( البحرالعمیق،۱/ ۳۰۰مُلخّصًا )

رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں

ذِکرِ مَحَبَّت عام ہے لیکن سوزِ مَحَبَّتعام نہیں

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھی میٹھی ا سلامی بہنو! بَیان  کردہ حکایت سے ہمیں کئی مَدَنی حاصل ہوئے،مثلاً بُزرگانِ دِین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ہر وَقْت یادِ الٰہی میں اَشکبار رہا کرتے تھے،رِقّت و سوز اُن پر طاری رہتا تھا،جب اُنہیں معلوم ہوتا کہ اُنہیں بھی اللہ پاک کی بارگاہ سے بلاوا آیا ہے تو یہ خوشخبری سُن کر اُن کی گریہ و زاری میں مزید اِضافہ ہوجاتا اور اُنہیں سَفرِ آخرت کی یادتڑپانے لگتی۔یہ حضرات سَفرِ مدینہ کے دوران جہاں مُختلِف عبادات کا سلسلہ جاری رکھتے وہیں یہ خوبی بھی اُن کے وُجود کا حِصَّہ ہوتی کہ بظاہر بدنی اور مالی لحاظ سے کمزور ہونے کے باوُجود بھی اللہ پاک کے مُقَدَّس گھر کے مہمانوں (Guests)کی خیر خواہی میں کوئی کمی باقی نہ رکھتے،اے کاش!یادِ الٰہی میں آنسو بہانے،فکرِ آخرت میں تڑپنے،نَفْل روزے رکھنے اورحاجیوں کی خیر خواہی کرنے کا یہ  مَدَنی جذبہ ہمیں بھی نصیب ہوجائے۔ اِس حکایت سے یہ  مَدَنی پھول بھی ملا کہ جب کبھی قسمت کا ستارہ چمکے،سَفرِ حج و زیارتِ مدینہ کا سُنہری موقع مُیَسَّر آئے تو اِس مبارک سفر میں ہمیں ایسوں