Book Name:Hazrat Sayyiduna Talha bin Ubaidullah ki Sakhawat

ہیں۔آئیے! اس ضمن میں 2 فرامینِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سُنتے ہیں:

1.  مَنْ سَرَّهُ اَنْ يَّنْظُرَ اِلٰى شَهِيْدٍ يَمْشِى عَلٰى وَجْهِ الْاَرْضِ فَلْيَنْظُرْ اِلٰى طَلْحَةَ بْنِ عُبَـیْدِ اللہِیعنی جو زمین پر چلتے پھرتے (یعنی زندہ)شہید کی زیارت سے خُوش ہونا چاہے،وہ طلحہ بن عُبَیْدُ اللہ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)  کو دیکھ لے۔([1])

2.  طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ جَارَاىَ فِى الْجَنَّۃِ یعنی طلحہ اور زُبَیْر( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا)جنّت میں میرے پڑوسی ہوں گے۔([2])

مُفَسِّرِ شَہِیر،حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان رَحمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: یعنی دونوں حضرات ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا)جنّت میں مجھ سے بہت ہی قریب ہوں گے،پڑوسی قریب ہی ہوتا ہے،قریب ہی رہتا ہے۔(مزید فرماتے ہیں کہ )اس فرمانِ عالی میں ان دونوں حضرات( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا) کا مؤمن مُتَّقی ہونا،اُن کا خاتمہ بالخیر،قبر کے امتحان میں کامیابی،محشر میں نجات، پُل صِراط سے بخیریت گُزرنا،جنّت میں داخلہ،وہاں کا مقام سب ہی بتادِیا گیا۔([3])

آئیے! اب  بُخل ،سخاوت،سخی اور بَخِیل کی تعریفات بھی سُنتے ہیں:

بخل کی تعریف

بخل کے لغوی معنٰی کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا، شرعاً،عادتاً یا مروّتاً لازم ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بُخل کہلاتا ہے۔ یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرناضروری ہو،وہاں خرچ نہ کرنا ،یہ بھی بخل ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، ج۲، ص۲۷، مفردات الفاظ القران۱۰۹)


 

 



[1] ترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد طلحۃ بن عبید اللہ،۵/۴۱۲،حدیث:۳۷۶۰

[2] ترمذی، کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد طلحۃ بن عبید اللہ،حدیث:۳۷۶۲، ۵/۴۱۳

[3] مرآۃ المناجیح،۸/۴۴۰