Book Name:Ghaus e Pak ki Ibadat O Riyazat

ص۴۶)

اس سے یہ معلوم ہوا کہ حضور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  اس  وقت تک کھانا تناول نہ فرماتے جب تک یہ حالت نہ ہوجاتی کہ اب کھائے بغیر نڈھال ہوجائیں گے اور عبادت کی قوت باقی نہ رہے گی اسی لئے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے دورکعت نمازپڑھی کہ ابھی تو عبادت کی قوت باقی ہے اور وہ کھانا وہیں چھوڑ دیا ۔ پتہ چلا کہ کھانا کھانے کا مقصد اور نیّت یہ ہونی چاہئے کہ اس کے ذریعے عبادتِ الٰہی پر قوت حاصل ہوسکے ۔صَحابہ کرام علیھمُ الرضوان اور اولیائے عِظام رَحِمَھُمُ اللہُ تعالٰی میں سے بعض کئی کئی روز تک نہیں کھاتے تھے، چُنانچِہ حُجَّۃُ الاسلام امام محمد غزالی علیہ رحمۃ الوالی فرماتے ہیں، حضرت سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چھ دن تک کچھ تناوُل نہ فرماتے ، حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن زُبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ سات دن تک نہ کھاتے ، حضرتِ سیِّدُناعبدُاللہ ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے شاگردِ رشید حضرتِ ابوالجوزاءرضی اللہ تعالیٰ عنہ سات دن بھوکے رہتے ، حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم بن اَدْھَم اور حضرتِ سیِّدُناسُفیانِ ثَوری رحمہم ا اللہ تعالٰی ہر تین دن کے بعد کھانا تناوُل فرماتے ۔ یہ تمام حضرات بھوک کے ذَرِیْعے آخِرت کے راستے پر چلنے میں مدد حاصِل کرتے تھے۔ (احیاء العلوم ج۳ ص۹۸)

جبکہ اس کے برعکس آج ہمارا حال یہ ہے کہ فقط نفس کی لَذَّت کی خاطر کھاتے ہیں اور وقت بے وقت ہر قسم کی چیزیں پیٹ میں انڈیلتے رہتے ہیں۔ اے کاش !ہمارا بھی بھوک سے  کم کھانے کا ذہن بن جائے اور ہم فقط اتنا کھائیں جس سے عبادتِ الٰہی پرقُوت حاصل ہوسکے۔ اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ  وَجَلَّاس سے دنیا و آخرت کی بے شمار بھلائیاں حاصل ہونگیں ۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                                            صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد