Book Name:Zaban ka Qufle Madina

بن عیاضرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےفرمایا:’’میں آج کی اس صُحبت سے بَہُت خوفزدہ ہوں ۔‘‘ سیِّدُنا سُفیان ثوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے پوچھا: کیوں ؟سیِّدُنا فضیل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جواب دیا: کیا ہم دو نوں اپنی گفتگو کو آراستہ نہیں کررہے تھے؟ کیا ہم تکلُّف میں مبُتلا نہیں تھے؟ سَیِّدُنا سُفیان ثوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہیہ سُن کر رو پڑے۔(مِنْھاجُ الْعابِدِین ص۴۴ )

                        اللہُ اَکْبَر! مقامِ غور ہے۔ان نیک بندوں کی ملاقات رضائے الہٰی عَزَّ  وَجَلَّ کیلئے اور ان کی بات چیت خالص اسلامی ہوا کرتی تھی ۔ مگر ان کا خوفِ خدا عَزَّ  وَجَلَّ مُلاحَظہ فرمایئے! دونوں اَولیائے کرامرَحِمَہُمَااللہُ السَّلَاماس ڈرسے رو رہے ہیں کہ ہماری گفتگو میں کہیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی نافرمانی تو نہیں ہوگئی۔ کہیں ہم فُضُول یا بِلا وجہ خُوبصورت جملے تونہیں بول گئے!

    نبیِّ کریم ،رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا:(بروزِ قیامت) تم میں میرے نزدیک سب سے زِیادہ ناپسندیدہ اور میری مجلس سے زیادہ دُور وہ لوگ ہوں گے جوبتکلُّف  بہت زِیادہ بولنے والے،خُوب فَصاحت بھری گُفتگو کرنے والے اوربغیر اِحتیاط کئے بہت زِیادہ کلام  کرنے والےہوں گے۔(المعجم الکبیر،۲۲/ ۲۲۱، حدیث :۵۸۸)

پرہیز گار تکلُّف سے دور ہوتے ہیں:

               حُجَّۃُ الْاِسْلام حضرت سَیِّدُنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالوَالِی فرماتے ہیں : آدمی کو چاہئے کہ ہر چیز میں مَقْصود پر اِکتفاکرےاور کلام کا مقصودغرض کوسمجھانا ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ تَصَنُّع(بناوٹ)ہےاورقابلِ مذمت ہےالبتہ خطابت میں مُبالغہ اور ناقابلِ فہم گفتگوسے بچتے ہوئے خوبصورت الفاظ سے وَعظ ونصیحت کرنااس میں داخل نہیں