نئے لکھاری

صحابۂ کرام کا سنّت پر عمل کا جذبہ

ماہنامہ جمادی الاولیٰ 1442

محبوب کا خوش دِلی سے ہر حکم ماننا اور ہر قسم کے ذاتی مفادات سے بے فکر ہو کر ہر حال میں اس پر عمل کرنا مَحَبَّت کا بنیادی تقاضا ہے۔ حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ساتھ تمام صحابۂ کرام   رضی اللہ عنہم  کی عملی مَحَبَّت کا جائزہ لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ اطاعت و فرمانبرداری کی ایسی مثالیں تاریخ میں کہیں اور نہیں ملتیں جن کا مظاہرہ صحابہ ٔکرام   رضی اللہ عنہم نے اللہ پاک کے آخری رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی اطاعت کی صورت میں کیا۔ ایسی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

حضرت سیّدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میرے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مجھے تین چیزوں کی وصیت فرمائی جنہیں میں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مجھے ہر مہینے تین روزے رکھنے ، چاشت کی نماز پڑھنے اور سونے سے پہلے وتر کی نماز پڑھ لینے کا حکم دیا۔  (بخاری ، 1 / 397 ، حدیث : 1178)

حضرت سیّدنا عبدُاللہ بن عمر   رضی اللہ عنہما ایک جگہ اپنی اونٹنی گھما رہے تھے ، اس پر ان سے پوچھا گیا (کہ یہ بلا ضرورت مشقت کیوں؟) تو فرمایا میں خود اس کی وجہ نہیں جانتا مگر یہ کہ رسول ُاللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو اسی طرح کرتے (اونٹنی گھماتے) دیکھا تھا۔ لہٰذا میں نے بھی یہ کام کیا۔ (الشفاء ، 2 / 15)

حضرت سیّدنا رافع  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں : “ اگر تم حضرت سیدنا عبدُاللہ بن عمر   رضی اللہ عنہما کو رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے آثار (سنّتوں) کی اتّباع کرتے ہوئے دیکھتے تو تم کہہ اٹھتے کہ یہ آدمی مجنون ہے۔ “ (معرفۃ الصحابۃ ، 3 / 187 ، رقم : 4312)

حضرت سیّدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ نبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  دو مینڈھوں کی قربانی فرمایا کرتے تھے اور میں بھی (آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی اتباع میں) دو مینڈھوں کی قربانی کرتا ہوں۔ (بخاری ، 3 / 573 ، حدیث : 5553)

صحابۂ کرام   رضی اللہ عنہم کی زندگیوں سے ہمیں جہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے وہاں یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وہ سنّتوں پر عمل پیرا ہونے میں کس قدر کوشاں تھے۔ ہمیں بھی اپنی زندگیوں کو صحابۂ کرام   رضی اللہ عنہم کے طرز ِعمل کے مطابق پیارےآقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سنّتوں پر عمل کرتے ہوئے گزارنا چاہئے۔ سنّتوں پر عمل کا ذہن بنانے اور بے شُمار سنتیں سیکھنے کے لئے دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی پیاری پیاری سنّتوں پر عمل کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  

عبدُاللہ فراز عطّاری

(درجۂ ثالثہ جامعۃالمدینہ فیضانِ مدینہ ، جوہر ٹاؤن لاہور)


Share

نئے لکھاری

صحابۂ کرام کا سنت پر عمل کا جذبہ

ماہنامہ جمادی الاولیٰ 1442

حضورِ اقدس  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنّتِ مقدّسہ کی پیروی ہر مسلمان  کے لئے وجہِ اعزاز و اکرام ہے ،  اللہ کریم کا فرمان  ہے : (تَرجَمۂ کنزُ الایمان : ) اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرماں بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔  (پ 3 ، اٰل عمران : 31)

آسمانِ ہدایت  کے چمکتے ہوئے ستارے ، رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے پیارے صحابہ   رضی اللہ عنہم  آپ کی ہر سنّتِ کریمہ کی اتّباع کو اپنی زندگی   کا لازمی حصّہ بنائے ہوئے تھے۔

حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ جس امر پر آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  عمل کیا کرتے تھے میں اسے کئے بغیر نہیں چھوڑتا ،  اگر میں آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے حال سے کسی امر کو چھوڑ دوں تو مجھے ڈر ہے کہ میں سنّت سے مُنحرف ہو جاؤں گا۔    (بخاری ، 2 / 338 ، حدیث : 3093)

اللہ اللہ یہ شوقِ اتباع اور پیروی !

کیوں نہ ہو! صدّیقِ اکبر تھے

حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ میں نے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو بِن چھانے آٹے کی روٹی کھاتے دیکھا ہے ،  اس لئے میرے واسطے آٹانہ چھانا جایا کرے ۔ ( طبقات ابن سعد ،  1 / 301)

مسلمان کو سلام کرنا بھی بڑی عظیم سنّت ہے  اور صحابۂ کرام اس پر عمل کا بھی بڑا عظیم جذبہ رکھتے تھے چنانچہ حضرت سیِّدُنا طُفَیل بن ابی کَعب  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن عمر   رضی اللہ عنہم اکے پاس جاتا تو وہ مجھے ساتھ لے کربازارکی طرف چل پڑتے۔ جب ہم بازار پہنچ جاتے تو حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ  رضی اللہ عنہ  جس ردی فروش ،  دُکاندار اور مسکین یاکسی شخص کے پاس سے گزرتے تو سب کو سلام کرتے۔ حضرت سیِّدُناطُفَیْل  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں (ایک دن جب بازارجانے لگے تو) : ’’میں نے پوچھا : ’’آپ بازار جا کر کیا کریں گے؟وہاں نہ تو خریداری کے لئے رُکتے ہیں۔ نہ سامان کے متعلق کچھ پوچھتے ہیں۔ نہ بھاؤ کرتے ہیں اورنہ بازارکی کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں۔ میری تو گزارش یہ ہے کہ یہیں ہمارے پاس تشریف رکھیں۔ ہم باتیں کریں گے۔ فرمایا : ’’ہم صرف سلام کی غرض سے جاتے ہیں ۔ ہم جس سے ملتے ہیں اُسے سلام کہتے ہیں۔ “ (موطا امام مالک ، 2 / 444 ، حدیث : 1844)

اللہ کریم ہمیں بھی صحابۂ کرام کےجذبۂ اتباعِ سُنّت سے حصّہ عطا فرمائے۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  

بنتِ محمد اسلم

( درجہ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضانِ رضا ، سرجانی ٹاؤن کراچی)


Share

نئے لکھاری

صحابۂ کرام کا سنت پر عمل کا جذبہ

ماہنامہ جمادی الاولیٰ 1442

صحابۂ کرام  علیہمُ الرِّضوان  نے اتّباع ِ سنّتِ مصطفےٰ سے بہت عظیم مقام پایا۔ ان کی اتباع کا جذبہ ایسا تھا کہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی ایسی کوئی ادا نہیں چھوڑی جس کو اپنی زندگی میں اپنایا نہ ہو ، آسمانِ ہدایت کے ان دَرَخْشَنْدہ ستاروں کی زندگی سنّتوں پر عمل کی خوشبو سے معطّر ہے۔

خاتم ُالنّبیّین  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی اداؤں کو اپنانا ، ان کے لئے کاربند رہنا ان کی زندگی کا “ جُزْءِ لَایَنْفَک “ بن چکا تھا ، صحابۂ کرام میں سنّت کی پیروی کا جذبہ اس قدر تھا کہ جس مقام پر جو کام حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے کیا تھا صحابۂ کرام  وہی کام  اسی مقام پر کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔

 ایک دن امیر ُالمؤمنین حضرت سیّدنا عثمانِ غنی  رضی اللہ عنہ  نے مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دستی کا گوشت منگواکر کھایا اور تازہ وضو کئے بغیر نماز ادا کی پھر فرمایا کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے بھی اسی جگہ یہی کھایا تھا پھر اسی طرح کیا تھا۔          (مسند احمد ، 1 / 137 ، حدیث : 441)

اسی طرح ایک مرتبہ سیّدنا عثمانِ غنی  رضی اللہ عنہ  وضو کرتے ہوئے مسکرانے لگے لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے میں نے ایک مرتبہ سرکار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو اسی جگہ پر وضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا ۔ سبحٰن اللہ!

وضو کر کے خَنداں ہوئے شاہِ عثماں

کہا کیوں تبسم بھلا کر رہا ہوں

جوابِ سوالِ مخاطب دیا پھر

کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں

بہرحال اس اتّباع کی برکت سے صحابۂ کرام نے سب کچھ حاصل کیا اور ان کا دستورِ عام یہی تھا کہ زندگی کے ہر شعبے میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی سنّت سے رہنمائی حاصل کرتے ، انہوں نے اپنی عادات اپنے اخلاق اور اپنے طرزِحیات کو حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے رنگ میں رنگنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

امیر المؤمنین حضرت سیّدناابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  نے اپنی وفات سے چند گھنٹے  پیشتر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدّیقہ  رضی اللہ عنہ ا سے دریافت کیا  کہ  رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے کفن میں کتنے کپڑے تھے ؟حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کی وفات کس دن ہوئی؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ  رضی اللہ عنہ  کی آرزو تھی کہ کفن اور یوم ِوفات میں آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی موافقت ہو۔

حیات میں حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی اتباع میں تھے ہی ممات میں بھی آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی اتباع چاہتے تھے۔ (بخاری ، 1 / 468 ، حدیث : 1387 ، صحابہ کرام کا عشق رسول ، ص 67)

اللہ اللہ یہ شوقِ اتباع

کیوں نہ ہو صدیقِ اکبر تھے

اے کاش صحابۂ کرام  علیہمُ الرِّضوان  کے قدموں کی دھول کے صدقے ہم بھی سچےّ عاشق ِرسول بن جائیں۔ کاش ہمارا اٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرنا ، کھانا پینا ، سونا جاگنا ، لینا دینا ، جینا مرنا میٹھے آقا   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی سنّت کے مطابق ہوجائے۔                                   (فیضان صدیق اکبر ، ص 475 ، 476 ماخوذاً)

بنت ِ حنیف عطّاریہ

(درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان عبد الرزاق ، حیدر آباد)


Share