ہماری کمزوریاں

دوسروں کو حقیر سمجھنا

*   محمد آصف عطاری مدنی

ماہنامہ جمادی الاولیٰ 1442

بنی اِسرائیل کا ایک شخص جو بہت گناہ گار تھا ایک مرتبہ بہت بڑے عابد (یعنی عبادت گزار) کے پاس سے گزرا جس کے سر پر بادَل سایہ کیا کرتے تھے۔ گناہ گار شخص یہ سوچ کر اُس عابد کے پاس بیٹھ گیا  کہ میں گناہ گار اور یہ بڑے عبادت گزار ہیں ، اگر میں ان کے پاس بیٹھوں تو امید ہے کہ اللہ کریم مجھ پر بھی رحم فرما دے۔ عابد کو اُس کا بیٹھنابہت ناگوار گزرا کہ کہاں مجھ جیسا عبادت گزار اور کہاں یہ پرلے درجے کا گناہ گار! یہ میرے ساتھ کیسے بیٹھ سکتا ہے! چنانچِہ اُس نے بڑی حَقارت سے اُس شخص کو کہا : اٹھو یہاں سے! اِس پر اللہ پاک نے اُس زمانے کے نبی علیہ السَّلام پر وحی بھیجی کہ ان دونوں سے کہو کہ اپنے عمل نئے سِرے سے شروع کریں ، میں نے اس گناہ گار کو بخش دیا اور عبادت گزار کے عمل ضائع کر دئیے۔ ([i])

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! جس طرح انسان کا ظاہر بہت سی خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے اسی طرح انسان کا باطن بھی اچھائیوں اور بُرائیوں کا مرکب (Compound) ہوتا ہے۔ مسکراہٹ ، جسمانی حرکات و سکنات کا باوقار ہونا ، نرم اندازِ گفتگو ، صاف ستھرے کپڑے ، سلیقے سے سنوارے ہوئے بال ، ناخن اور دانتوں کا صاف ہونا ، جسم پرمیل کچیل کا نہ ہونا اور دیگر بہت سی چیزیں انسان کے ظاہر کو اچھا بناتی ہیں جبکہ گالم گلوچ ، فحش کلامی ، جھوٹ ، غیبت ، تہمت لگانے ، چغلی کھانے ، چوری کرنے اور ظلم کرنے جیسے اوصاف ہمارے ظاہری کردار (Character) کو داغدار کردیتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں سے ہمدردی و خیر خواہی کا جذبہ ، ان سے محبت رکھنا ، عاجزی ، اخلاص جیسے جذبات ہمارے باطن کو چمکا دیتے ہیں جبکہ کسی سے حسد و جلن رکھنا ، بغض و کینہ رکھنا اور ریاکاری جیسی بہت سی بُرائیاں ہمارے باطن کو آلودہ کردیتی ہیں۔ باطن کی اچھائیاں اور بُرائیاں ظاہر پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں مثلاً دل میں نرمی ہوگی تو اس کی مٹھاس زبان پربھی آئے گی۔

ہمارے باطن کو گندہ کرنے والی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ ہم تکبر کریں ، کسی شخص کو گھٹیا اور حقیر جبکہ خود کو اس سے افضل اور بہتر جانیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تمام لوگ امیری ، غریبی ، بیماری و تندرستی ، سُستی ، چُستی ، ترقی ، ناکامی ، کامیابی ، کمزوری ، طاقتوری ، ضعیفی ، جوانی وغیرہ کے اعتبار سے برابر نہیں ہوتے بلکہ ان میں فرق ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایک شخص دوسرے سے بَرتَر یا برابر یا کم تَر ہوتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ ہم خود کو دوسروں کے مقابلے میں کیا سمجھیں ، بَرتَر ، برابر یا کمتر؟ تو گزارش ہے کہ خود کو کسی کے برابر سمجھنے میں بظاہر کوئی حرج نہیں اور اگر ہم خود کو دوسروں سے حقیر سمجھیں تو یہ عاجزی ہے جو کہ اچھی بات ہے اور باعثِ ثواب ہے ، لیکن ہم کسی کو اپنے سے گھٹیا ، حقیر اور کَمتر سمجھیں تو یہ بُری بات ہے اسی کو تکبر کہتے ہیں جو حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

قید خانہ : تَکَبُّر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلّت و رُسوائی کا سامنا ہوگا ، چنانچِہ رسولِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا مبارک فرمان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا ، ہرجانب سے ان پر ذلّت طاری ہوگی ، انہیں جہنم کے “ بُولَس “ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آ جائے گی ، انہیں طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ ([ii])

تکبر کے اثرات : تکبر ایسی ہلاکت خیز باطنی بیماری ہے کہ اپنے ساتھ دیگر کئی بُرائیوں کو لاتی ہے اور اچھائیوں سے محروم کردیتی ہے ، چُنانچِہ امام محمد بن محمد غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں : متکبر شخص جو کچھ اپنے لئے پسند کرتا ہے اپنے مسلمان بھائی کے لئے پسند نہیں کرسکتا ، ایسا شخص عاجزی پر بھی قادر نہیں ہوتا جو تقویٰ و پرہیزگاری کی جَڑ ہے ، کینہ بھی نہیں چھوڑ سکتا ، اپنی عزت بچانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے ، اس جھوٹی عزت کی وجہ سے غصہ نہیں چھوڑ سکتا ، حسد سے نہیں بچ سکتا ، کسی کی خیرخواہی نہیں کرسکتا ، دوسروں کی نصیحت قبول کرنے سے محروم رہتا ہے ، لوگوں کی غیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے الغرض متکبر آدمی اپنا بھرم رکھنے کے لئے ہر بُرائی کرنے پر مجبور اور ہر اچھے کام کو کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے۔ ([iii])

تکبر کی وجوہات : انسان عُموماً 9 وُجوہات کی بِنا پر خود کو افضل اور دوسروں کو گھٹیا سمجھتا ہے :

(1)علم : بارش اگر زرخیز زمین پر برسے تو وہاں ہریالی (Greenery) ہوجاتی ہے ، فصل اچھی ہوتی ہے اور پھلوں میں لذت بڑھ جاتی ہے اور اگر کچرے اور کوڑے کرکٹ والی زمین پر برسے تو گندگی میں اضافہ ہوتاہے ، بالکل اسی طرح علم جہاں بہت ساروں کو نکھار اور سنوار دیتا ہے ان کی عبادت ، خوف و خَشِیّت اور پرہیزگاری میں اِضافہ ہوجاتا ہے وہیں علم کی وجہ سے خواہشاتِ نفس میں گرفتار انسان کا دماغ آسمان پر چڑھ جاتا ہے اور وہ دوسروں کو جاہل اور گنوار سمجھنے لگتا ہے۔

ایسوں کو “ مُعَلِّمُ الْمَلَکُوت “ کے مَنصَب تک پہنچنے والےشیطان کا اَنجام یاد رکھنا چاہئے جس نے اپنے آپ کو حضرت سیِّدُنا آدم  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  سے افضل قرار دیا تھا مگر اُسے اِس تَکَبُّر کے نتیجے میں کیا ملا! ڈرنا چاہئے کہ کہیں یہ تَکَبُّر ان کو بھی عذابِ جہنم کا حقدار نہ بنا دے۔

(2)عبادت : فرائض و واجبات کی پابندی کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات مثلاً تہجد ، اِشراق و چاشت ، اوّابین کے نوافل ، تلاوتِ قراٰن ، نفلی روزے ، ذکر و اَذکار اور دیگر وظائف کی کثرت بہت ہی عمدہ عادت ہے لیکن اس کی وجہ سے نفلی عبادت نہ کرنے والوں کو گھٹیا اور حقیر سمجھنا جائز نہیں۔

(3)دولت : حلال ذرائع سے کمائی ہوئی دولت بُری چیز نہیں ، بات تب بگڑتی ہے جب غربت میں رہنے والے افراد کیڑے مکوڑوں کی طرح حقیر دکھائی دینے لگیں۔ یاد رکھئے! دولت میں وفا نہیں ، آج اِس کے پاس تو کل اُس کے پاس! کل کا امیرآج کا غریب اور کل کا غریب آج امیر ہوسکتا ہے تو ایسی عارضی شے کی وجہ سےکسی مسلمان کو کیوں حقیر سمجھا جائے؟

(4)صحت و طاقت : تندرست توانا جسم ، قابلِ رشک صحت اللہ کی دَین ہے لیکن اس وجہ سے کمزوروں ، بیماروں اور چھوٹے قَد والوں کو حقیر سمجھنا جائز نہیں ہے۔ ذرا غور کیا جائے تو ہمارے جسم کی ناتُوانی کا تو یہ حال ہے کہ اگر ایک دن بخار آجائے تو طاقت و قُوَّت کا سارا نشہ اتر جاتا ہے ، معمولی سی گرمی میں ذرا پیدل چلنا پڑے تو پسینے سے شَرابُور ہوکر نِڈھال ہوجاتے ہیں ، سَرد ہوا چلے تو کپکپانے لگتے ہیں ، اگر انسان کی ڈاڑھ میں درد ہوجائے تو اُس وقت خوب اندازہ ہوجاتا ہے کہ اُس کی طاقت و قوت کی حیثیت کیا اور کتنی ہے! پھر جب موت آئے گی تو یہ ساری طاقت و قُوَّت دَھری کی دَھری رہ جائے گی اور بے بسی کا عالَم یہ ہوگا کہ اپنی مرضی سے ہاتھ تو کیا اُنگلی بھی نہیں ہِلاسکیں گے۔ لہٰذا! ایسی عارِضی قُوَّت پر نازاں ہونا ہمیں زَیب نہیں دیتا۔

(5)شہرت : بعضوں کو جب کسی حوالے سے تھوڑی بہت شہرت (Popularity) مل جاتی ہے تو وہ اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں دوسرے لوگ چھوٹے اور حقیر لگنے لگتے ہیں۔ یاد رکھئے کہ ہر عروج کو زوال ہے ، اسی طرح شہرت کے آسمان پر چمکنے والے ستارے بھی گمنامی کے اندھیروں میں کھو جاتے ہیں ، لہٰذا شہرت کی وجہ سے دوسروں کو حقیر سمجھناچھوڑ دیجئے۔

(6)عہدہ ومنصب : اونچا منصب ، بڑا عہدہ بھی ایسی چیز ہے جس کے پاس آجائے اسے اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے ، اپنے سے چھوٹے منصب والے اسے حقیر لگنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہئے کہ اپنا ذہن بنائیں کہ فانی پر فخر نادانی ہے ، عزّت و مَنصَب کب تک ساتھ دیں گے ، جس مَنصَب کے بَل بوتے پر آج اَکڑتے ہیں کل کَلاں کو چِھن گیا تو شاید انہی لوگوں سے مُنہ چُھپانا پڑے جن سے آج تحقیر آمیز سُلوک کرتے ہیں۔

(7)حسن و جمال : بعض اوقات انسان اپنی خوبصورتی (Beauty) کی وجہ سے متکبر ہوجاتا ہے ، کسی کا رنگ گورا ہے تو وہ کالے رنگ والے کو ، کوئی قد آور ہے تو وہ چھوٹے قد والے کو ، کسی کی آنکھیں بڑی بڑی ہیں تو وہ چھوٹی آنکھوں والے کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے ، عُموماً یہ بیماری مَردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ یاد رکھئے! عمر کے ہر دَور میں حُسن یکساں نہیں رہتا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماند پڑجاتا ہے ، کبھی کوئی حادِثہ بھی اس حُسن کے خاتمے کا سبب بن جاتا ہے ، کھولتا ہوا تیل تو بڑی چیز ہے ، اُبلتا ہوا گرم دودھ بھی سارے حُسن کو غارت کرنے کیلئے کافی ہے۔ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ انسان جب تک دنیا میں رہتا ہے اپنے جسم کے اندر مختلف گندگیوں مثلاً پیٹ میں غلاظت اور بدبودار ہوا ، ناک میں رینٹھ ، منہ میں تھوک ، کانوں میں بدبو دار میل ، ناخُنوں میں مَیل ، آنکھوں میں کیچڑ لئے پھرتا ہے ، روزانہ کئی کئی بار اِستنجا خانے (Toilet) میں اپنے ہاتھ سے گندگی دھوتا ہے ، کیا ان سب چیزوں کے ہوتے ہوئے فَقَط گوری رنگت ، ڈیل ڈول اور قد و قامت وغیرہ پر تَکَبُّر کرنا زیب دیتا ہے! یقینا ًنہیں۔

(8)حسب نسب : بعض لوگ اپنے اونچے حسب نسب کی وجہ سے بھی دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ دوسروں کے کارناموں پر گھمنڈکرنا جہالت ہے۔ تکبر کرنے والا غور کرے کہ اگر کچھ کمال تھا بھی تو وہ آباؤ اجداد میں تھا خود اس میں کیا کمال ہے جو دوسروں کو گھٹیاسمجھ رہا ہے۔

(9)کامیابیاں : جب مسلسل کامیابیاں بعض لوگوں کے قدم چُومتی ہیں تو شکر گزار بندے بننے کے بجائے وہ پے درپے ناکامیوں کے شکار ہونے والے دُکھیاروں کو حقیر سمجھنا شروع کردیتے ہیں ، انہیں بے وُقُوف ، نادان ، گدھا اور نہ جانے کیسے کیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ کامیابیوں پر پھولے نہ سَما کر جامے سے باہَر ہونے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ، بلندیوں پر پہنچنے والوں کو اکثر واپس پستی میں بھی آنا پڑتا ہے ، ہر کمال کو زوال ہے۔ آپ کو کامیابی ملی اِس پر اللہ پاک کا شکر کیجئے نہ کہ اپنا کمال تَصَوُّر کرکے ناشکروں کی صف میں کھڑے ہونے کی جسارت!

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! ذرا سوچئے کہ اِس تَکَبُّر کا کیا حاصل! محض لذّتِ نفس ، وہ بھی چند لمحوں کے لئے! جبکہ اِس کے نتیجے میں اللہ و رسول کی ناراضی ، مخلوق کی بیزاری ، میدانِ محشر میں ذلّت و رُسوائی جیسے بڑے بڑے نقصانات کا سامنا ہے! اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ چند لمحوں کی لذّت چاہئے یا ہمیشہ کے لئے جنّت! میدانِ محشر میں عزّت چاہئے یا ذلّت! یقیناً ہم خسارے (یعنی نقصان) میں نہیں رہنا چاہیں گے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اپنے اندر اِس مرضِ تَکَبُّر کی موجودگی کا پتا چلائیں اور اِس کے عِلاج کے لئے کوشاں ہوجائیں۔

(تکبر کے بارے میں مزید معلومات کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب “ تکبُّر “ کا مطالعہ فرما لیجئے۔ )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   چیف ایڈیٹر ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی

 



([i])احیاء العلوم ، 3 / 429ملخصاً

([ii])ترمذی ، 4 / 221 ، حدیث : 2500

([iii])احیاء العلوم ، 3 / 423 ملخصاً


Share

Articles

Comments


Security Code