حضرت  عبداللہ بن مبارک رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ذریعۂ معاش/

شیخ الاسلام حضرت سیّدنا ابوعبدالرحمٰن عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم، پرہیزگاروں کے سردار اورتابعی بزرگ تھے۔ حضرت اسماعیل بن عَیّاش رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:روئے زمین پر حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جیسا کوئی نہیں اور میرے علم کے مطابق اللہ پاک نے کوئی بھی ایسی خیر والی خصلت پیدا نہیں فرمائی جو حضرت عبد اللہ بن مبارکرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میں موجود نہ ہو۔ آپ کی ساری زندگی حج، تجارت اور جہاد کیلئے سفر کرتے گزری۔آپ وہ پہلے شخص ہیں جس نےجہاد کے موضوع پر کتاب تصنیف فرمائی۔ 118ھ بمطابق736ء کو خراسان میں پیدا ہوئے اور رمضان المبارک 181ھ بمطابق 797ء کو روم کی جنگ سے واپسی پر دریائے فرات کے قریب مقام ہِیْت میں انتقال فرماگئے۔

(الاعلام للزرکلی،ج4،ص115،سیر اعلام النبلاء،ج7،ص602،606)

ذریعۂ آمدن آپ کپڑے کی تجارت کرتے تھے اور فرماتے تھے:اگر پانچ شخصیات نہ ہوتیں تو میں تجارت ہی نہ کرتا،پوچھا گیا وہ پانچ شخصیات کون ہیں تو فرمایا:(1) حضرت سفیان ثوری (2) حضرت سُفیان بن عُیَیْنَہ(3) حضرت فضیل بن عِیاض (4) حضرت محمد بن سَمّاک اور(5) حضرت ابن عُلَیّہ علیہم الرحمۃ آپ تجارت کیلئے خراسان کا سفر فرماتے اور جو نفع ہوتااس میں سے بقدر ضرورت اپنے اہل و عیال کا اور حج کا خرچہ نکال کر باقی ان پانچ ہستیوں کو بھجوادیتے۔ (تاریخ بغداد،ج6،ص234)

علماکی مالی خدمت آپ اہلِ علم پر بکثرت مال خرچ کرتے تھے تاکہ وہ فکرِ معاش سے آزاد ہو کر یکسوئی کے ساتھ دین کی خدمت میں مشغول رہیں، چنانچہ حضرت حِبّان بن موسیٰرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان کرتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن مبارکرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو اپنا شہر چھوڑ کر دوسرے شہروں میں مال تقسیم کرنے پر ملامت کی گئی توآپ نے فرمایا: ایسی جگہیں جانتا ہوں جہاں صاحب فضل و کمال اور مخلص لوگ رہتے ہیں جنہوں نے اچھی طرح علم حدیث حاصل کیا اور لوگوں کو ان کے علم کی ضرورت ہے، اگر ہم نے ان کو چھوڑدیا تو ان کا علم ضائع ہو جائے گا اوراگر ہم نے ان کی مدد جاری رکھی تو وہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت کے لئے علم پھیلادیں گے۔

(سیر اعلام النبلاء،ج 7،ص608)

تجارت کیلئے اچّھی اچّھی نیتیں ایک مرتبہ حضرت سیّدنا فضیل بن عِیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے کہا:آپ ہمیں تو دنیا سے بے رغبتی اختیار کرنےاور اس سے بقدر ضرورت لینے کا حکم دیتے ہیں اور خود خراسان کے شہروں سے حرمت والے شہر (یعنی مکہ مکرمہ) میں سامانِ تجارت سے بھری سواریاں لے کر آتے ہیں؟ آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:میں یہ اس لئے کرتا ہوں تاکہ اس مال کے ذریعے سوال کرنے سے بچ جاؤں ،اپنی عزت کی حفاظت کروں اور اپنے رب کی عبادت پر مدد حاصل کروں اور کوئی ایسا حقُّ اللہ نہیں جس کی طرف میں جلدی نہ کرتا ہوں اور اسے ادا نہ کرتا ہوں۔حضرت فضیل بن عِیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے آپ کے جواب کو پسند کیا۔ (تاریخ بغداد،ج 10،ص 158)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ،باب المدینہ کراچی


Share

حضرت  عبداللہ بن مبارک رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ذریعۂ معاش/

دَین بیچنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کا بکر پر 2500روپے دَین تھا، بکر ایک ساتھ اس دَین کو ادا نہیں کرسکتا ،خالد نے زید سے کہا کہ تمہارا بکر پر جو دَین([1]) ہے وہ مجھے 2000روپے میں بیچ دو، میں تمہیں 2000 یکمشت دے دیتا ہوں پھر زید سے میں تھوڑا تھوڑا کرکے وصول کرتا رہوں گا،کیا خالد اور بکر کا اس طرح کرنا درست ہے یا نہیں ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پوچھی گئی صورت میں خالد اور بکر کا اس طرح بیع کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ دَین کی بیع غیرِمدیون کے ساتھ ہو رہی ہے اور کرنسی کے کرنسی سے لین دین میں ادھار کسی صورت جائز نہیں اگرچہ کہ برابر برابر ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

فلموں اور گانوں کی سی ڈیز بیچنا کیسا؟

سوال:جو لوگ سی ڈی اور ڈی وی ڈی سینٹر چلاتے ہیں جہاں فلموں اور گانوں پر مبنی مٹیریل بیچا جاتا ہے تو کیا یہ کاروبار ناجائز اور حرام ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:ایسا کاروبارکرنا،ناجائز و حرام اور ایسا کاروبار کرنے والا نارِ جہنم کا مستحق ہے اس کام میں گناہ پر معاونت ہے، اللہ ربُّ العزّت نے قرآنِ پاک میں گنا ہ پر معاونت سے ہمیں باز رہنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ سورۂ مائدہ میں ہے: (وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪-)ترجمۂ کنز الایمان: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔(پ 6،المآئدۃ:2)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ان لوگوں پر لازم ہے کہ اس حرام کام کو چھوڑ کر حلال ذریعہ ٔروزگار اپنائیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کفّار کے میلوں میں مسلمان کا دُکان لگانا کیسا ؟

سوال:کفّار کے میلوں میں مسلمان کادُکان لگانا کیساہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں امامِ اَہلِسنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن نے فتاوٰی رضویہ شریف میں بہت تفصیل سے جواب دیا ہے وہ ملاحظہ ہو: ”اگر وہ میلہ اُن کا مذہبی ہےجس میں جمع ہوکر اعلانِ کفر و اَدائے رُسومِ شرک(یعنی اعلانیہ شعائرِ کفر وشرک کی ادائیگی) کریں گے تو بقصدِ تجارت بھی جانا ناجائز و مکروہِ تحریمی ہے،اور ہرمکروہِ تحریمی صغیرہ، اور ہرصغیرہ اصرار سے کبیرہ۔ علماء تصریح فرماتے ہیں کہ مَعابدِ کفّار(یعنی کفّار کی عبادت گاہوں)میں جانا مسلمان کو جائزنہیں، اور اس کی علّت یہی فرماتے ہیں کہ وہ مجمعِ شیاطین(شیطانوں کے جمع ہونے کی جگہیں) ہیں، یہ قطعاً یہاں بھی مُتَحَقَّق، بلکہ جب وہ مجمع بغرضِ عبادت ِغیرِخدا (یعنی غیرِ خدا کی عبادت کےلئے)ہے تو حقیقۃً معابدِ کفّار(کافروں کے عبادت خانے کے حکم )میں داخل کہ مَعْبَد (عبادت خانہ) بوجہِ اُن اَفعال کے مَعْبَد ہیں،نہ بسببِ سقف ودیوار(نہ کہ چھت اور دیوار کی وجہ سے)،۔۔۔اور اگر وہ مجمع مذہبی نہیں بلکہ صرف لہوولعب (کھیل کود)کا میلاہے تو محض بغرضِ تجارت جانا فی نفسہٖ ناجائز وممنوع نہیں جبکہ کسی گناہ کی طرف مُؤَدِّی (لے جانے والا) نہ ہو، علماء فرماتے ہیں مسلمان تاجر کو جائز کہ کنیز وغلام وآلاتِ حرب(جنگی ساز و سامان) مثلِ اَسْپ(گھوڑا) و سِلاح(لڑائی کے ہتھیار) وآہَن وغیرہ کے سوا اورمال کفّار کے ہاتھ بیچنے کے لئے دارُالحرب میں لے جائے اگرچہ اِحْتِرَاز افضل، توہندوستان میں کہ عندالتحقیق دارُالحرب نہیں ، مجمعِ غیرمذہبی کَفَرَہ (کافروں کے غیر مذہبی مجمع) میں تجارت کےلئے مال لے جانا بدرجۂ اولیٰ جوازرکھتاہے۔۔۔پھربھی کراہت سےخالی نہیں کہ وہ ہروقت مَعَاذَ اللہ محلِّ نزولِ لعنت (لعنت کے اُترنے کی جگہیں) ہیں تو اُن سے دوری بہتر، یہاں تک کہ علماء فرماتے ہیں اُن کے محلّہ میں ہو کر گزرہو تو شِتابی (جلدی) کرتاہوا نکل جائے وہاں آہستہ چلناناپسند رکھتے ہیں تورُکنا ٹھہرنابدرجۂ اولیٰ مکروہ۔۔پھرہم صدرِکلام (ابتدائے کلام) میں ایما(اشارہ) کر چکے کہ یہ جواز بھی اُسی صورت میں ہے کہ اسے وہاں جانے میں کسی معصیَّت (گناہ)کاارتکاب نہ کرنا پڑے مثلاً جلسہ ناچ رنگ کا ہو اور اسے اُس سے دور و بیگانہ موضع (یعنی دُور الگ تھلگ مقام ) میں جگہ نہ ہو تو یہ جانا مستلزمِ معصیَّت(یعنی گناہ کو لازم کرنے والا) ہوگا اور ہرملزومِ معصیَّت، معصیَّت (گناہ کو لازم کرنے والی ہر بات خود گناہ ہے)اور جانا محض بغرضِ تجارت ہو نہ کہ تماشا دیکھنے کی نیت کہ اس نیت سے مطلقاً ممنوع اگرچہ مجمع غیر مذہبی ہو۔(فتاوی رضویہ،ج23،ص523 تا 526ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ٹی وی بیچنا کیسا ہے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میںکہ گھر میں دو ٹی وی ہیں،اگر ان میں سے ایک بیچیں اور خریدنے والا اس کا غلط استعمال کرے تو کیا گناہ ہمیں ملے گا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: صورتِ مسئولہ میں آپ گنہگار نہیں ہوں گے، کیونکہ ٹی وی بذاتِ خود بُرا نہیں،اس کا استعمال اچھا بھی ہےاور بُرابھی،خریدنے والا اس کا جیسا استعمال کرے،اس کا وبال آپ پر نہیں،اس کا وہ خود ذمہ دار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۚ-)ترجمۂ کنز الایمان:اور کوئی بوجھ اُٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گی۔(پ8،الانعام:164)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مُردہ جانور کی کھال بیچنا کیسا ؟

سوال: بعض لو گ مُردہ جا نور کی کھا ل اُتا ر کر بیچ دیتے ہیں ان کا کھا ل اُتا رنا اور اس کو بیچنا کیسا ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: پوچھی گئی صورت میں کھا ل اُتار کر اگر دَبا غَت کے بعد بیچتے ہیں تو جا ئز ہے ورنہ جا ئز نہیں ہے۔اعلیٰ حضر ت امامِ اَہلِسنت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے سوا ل ہوا کہ کھا لِ مُردہ کا بیچنا جا ئز ہے یا نہیں ؟اس کا جو اب کچھ یوں ارشاد فرمایا: ’’کھا ل اگر پکا کر یا دھو پ میں سکھا کر دباغت کر لی جا ئے تو بیچنا جا ئز ہے لِطَھَارَتِہٖ وَ حِلِّ الْاِنْتِفَاعِ (بسبب اس کی طہارت کے اور اس سے نفع کے حلا ل ہو نے کی وجہ سے) ورنہ حرام وباطل ہے لِاَنَّہٗ جُزْءُ مَیِّتٍ وَبَیْعُ الْمَیْتَۃِ بَاطِلٌ (اس لئے کہ وہ مردار کی جُز ہے اور مر دار کی بیع با طل ہے)۔‘‘(فتاوی رضو یہ،ج17،ص161)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…دارالافتااہل سنّت نور العرفان ،کھارا در ،باب المدینہ کراچی



([1]): جو چیز واجب فی الذمہ ہو کسی عقد مثلاً بیع یا اجارہ کی وجہ سے یا کسی چیز کے ہلاک کرنے سے اسکے ذمہ تاوان ہو یا قرض کی وجہ سے واجب ہو، ان سب کو دَین کہتے ہیں۔ (حاشیہ بہارشریعت،ج752،ص2)


Share

Articles

Comments


Security Code