ایک ساتھ دو چیزیں خریدنےکی صورت میں قیمت کم کرنا کیسا؟

احکام تجارت

*مفتی ابو محمد علی اصغر  عطاری  مَدَنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2023ء

 ( 1 ) ایک ساتھ دو چیزیں خریدنےکی صورت میں قیمت کم کرنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک چیز دس روپے کی ہے لیکن زید یہ آفر دیتا ہے کہ اگر دو چیزیں ایک ساتھ خریدو گے تو قیمت بجائے بیس روپے کےپندرہ روپے ہوگی ، حالانکہ دونوں چیزوں کی اصل قیمت دس روپے ہے۔ تو کیا زید کا اس طرح کی آفر دے کر اپنی چیز فروخت کرنا درست ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : بیع (Contract of sale) درست واقع ہونے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ مبیع  ( Goods )  اور ثمن  ( Price )  کی مقدار اور اوصاف کا متعین ہونا ضروری ہے۔ پوچھی گئی صورت میں مبیع اورثمن دونوں متعین ہیں ان میں کسی قسم کا ابہام  ( Confusion )  نہیں۔کسی اور وجہ سے کوئی شرعی خامی نہ پائی جاتی ہو تو اس طرح سودا  ( deal ) کرنا درست ہے۔

رہی یہ بات کہ زید دو چیزیں ایک ساتھ خریدنے کی صورت میں قیمت میں کمی کرتا ہے تو اس میں بھی شرعاً کوئی حرج نہیں ، کیونکہ ہر شخص کو اپنی چیز کم یا زیادہ ریٹ میں فروخت کرنے کا مکمل اختیار ہے ، شریعت میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ، بشرطیکہ سودا باہمی رضامندی سے ہو اور اس میں کسی قسم کی کوئی خلافِ شرع بات نہ پائی جائے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ )  ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو۔ ( پ5 ، النسآء : 29 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

فتاویٰ امجدیہ میں ہے : بیع میں ثمن کو معین کرنا ضروری ہے ، درِ مختار میں ہے : وشرط لصحته معرفة قدر مبيع وثمن اور جب ثمن معین کردیا جائےتو بیع چاہے نقد ہو یا ادھار سب جائز ہے۔۔۔ ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کم یا زیادہ جس قیمت پر مناسب جانے بیع کرے ، تھوڑا نفع لے یا زیادہ شرع سے اس کی ممانعت نہیں۔ ( فتاویٰ  امجدیہ ، ص181 )

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 2 ) کیا مرحوم کا قرض ادا کرنے والا ترکے سے رقم لے سکتا ہے ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر مرنے والے پر کچھ قرضہ ہو اور کوئی وارث اپنے ذاتی مال سے اس کا قرضہ ادا کردے تو کیا وہ ترکے سے یہ رقم وصول کرسکتا ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : اگر کوئی وارث اپنے مال سے میت کا قرض ادا کردے اور قرض ادا کرتے وقت اس نے یہ نہ کہا ہو کہ میں یہ قرض ، تبرعاً ادا کررہا ہوں یعنی واپس نہیں لوں گا اس طرح کے الفاظ نہ بولے ہوں تو اس نے قرض کی ادائیگی میں جتنی رقم دی ہے وہ رقم میت کے ترکے سے وصول کرسکتا ہے۔

سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : قرضِ مورث کہ بکر پسر بالغ  (Adult) نے ادا کیا تمام و کمال ترکہ مورث سے مجرا پائے گا جبکہ وقتِ ادا تصریح نہ کردی ہو کہ مجرا نہ لوں گا۔ ( فتاویٰ رضویہ ،  25  / 385 )

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 3 ) چیز خرید کر قبضہ کرنے سے پہلے آگے بیچنا جائز نہیں

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید شہد بیچتا ہے اور بکر اس سے مبلغ 2500 روپے میں شہد خریدکر 2500  روپے اس کے حوالے کر دیتا ہے ، لیکن شہد اپنے قبضے میں نہیں لیتا ، بلکہ بغیر قبضہ کیے زید کو ہی کہہ دیتا ہے کہ میں کسی تیسرے شخص کو یہ شہد بیچ دوں گا ، وہ آپ کے پاس آ کر وصول کرلے گایا پھر آپ اس کے ایڈریس پر بھجوا دیجیئے گا۔ پھر بکر کسی تیسرے شخص مثلاً حامد کو وہ شہد مبلغ 3000 روپے کا بیچ کر قیمت وصول کر لیتا ہے۔ بکر کے کہنے پر حامد جاکر زید سے شہد وصول کر لیتا ہے یا بکر کے کہنے پر زید ، حامد کو پارسل کروا دیتا ہے۔ ہماری شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیابکر کا اس طرح یعنی بغیر قبضہ کیے شہد آگے بیچ دینا شرعاً جائز ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : پوچھی گئی صورت میں بیع  ( Contract of sale ) کا جو طریقہ کار بتایا گیا ہے ، شرعاً اس طرح بیع  (Contract of sale)  کرنا جائز نہیں ، کیونکہ شریعت مبارکہ کا قانون ہے کہ خریدنے کے بعد جس چیز کو فروخت کرنا ہو ، تو پہلےخرید کر خود یا اپنے وکیل کے ذریعے اس پر حقیقی  ( physical )  یا حکمی  ( constructive )  قبضہ  ( possession )  کر لے پھر فروخت کرے۔ کسی چیز کو خریدنے کے بعد خود یا اپنے وکیل کے ذریعے قبضہ کرنے سے پہلے بیچناجائز نہیں ہوتا۔

صحیح مسلم شریف کی حدیثِ مبارک ہے : نھانا رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ و سلّم ان نبیعہ حتی ننقلہ من مکانہ یعنی صحابہ کرام  علیہم الرضوان  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چیز کو خریدنے کے بعدجب تک اسے وہاں سے اٹھانہ لیں  ( یعنی قبضہ نہ کرلیں ) آگے بیچنے سے منع فرمایا۔ ( صحیح مسلم ، 2  / 5 )

صحیح مسلم شریف ہی کی ایک دوسری حدیثِ مبارک میں ہے : عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ابتاع طعاما فلایبعہ حتی یقبضہ قال ابن عباس واحسبہ کل شیء بمنزلۃ الطعام۔ ترجمہ : حضرتِ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کھانا خریدے تو اسے قبضہ سے پہلے نہ بیچے ، حضرتِ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : میں قبضہ کے مسئلے میں ہر چیز کو کھانے کے مرتبے میں شمار کرتا ہوں۔ ( صحیح  مسلم ، 2  / 5 )

سننِ کبریٰ للنسائی کی حدیثِ مبارک ہے : عن حکیم بن حزام  فقال لی رسول الله صلى الله عليه و سلم اذا بعت شیئا فلاتبعہ حتی تقبضہ ترجمہ : حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا : جب تم کوئی چیز خریدو تو قبضہ کیے بغیر اسے فروخت نہ کرو۔

 ( سنن الکبریٰ للنسائی ، 6  / 60 )

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : منقول چیز خریدی ، تو جب تک قبضہ نہ کر لے اس کی بیع نہیں کرسکتا۔

 ( بہارِشریعت ، 2  / 747 )

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 4 ) ویڈیو یا تصاویر بناکر ویب سائٹ کو بیچنا کیسا ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کچھ لوگ ویڈیوز یا تصاویر شوٹ کرکے اسے کسی ویب سائٹ وغیرہ پر بیچ دیتے ہیں۔ ایسا کرنا کیسا ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : اگر جاندار کی تصویر ہو اور اس کا پرنٹ نکال لیا جائے تویہ جائز نہیں۔

البتہ اگر ڈیجیٹل تصویر یا ویڈیو ہے تو یہ بھی ایک پراڈکٹ ہے اور اسے بھی ہمارے عرف میں مال سمجھا جاتا ہے اور اس پر بھی وقت اور سرمایہ خرچ ہوتا ہے لہٰذا مال ہونے کی وجہ سے اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے لیکن اس میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس میں کوئی غیر شرعی یا غیر اخلاقی مواد نہ ہو ، مقاصدِ شریعت کے خلاف کسی بات پر مشتمل نہ ہو۔ لہٰذا پہلے مفتیانِ کرام سے رہنمائی لے لی جائے کہ اس مواد پر مشتمل تصویر اور ویڈیو بیچنا درست ہے یا نہیں ؟ اور شرعی رہنمائی کی روشنی میں ہی کام کریں۔

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محققِ اہلِ سنّت ، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورُالعرفان ، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code