شادی میں تاخیر(Delay in marriage)

ہماری کمزوریاں

شادی میں تاخیر ( Delay in marriage )

*مولانا ابو رجب محمدآصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2023

 ہیڈ خانکی  ( پنجاب )  پر 25 سالہ نوجوان خودکشی ( Suicide )  کے لئے دریا میں چھلانگ لگانے لگا تو وہاں پر موجودلوگوں نے شورمچادیا جس پر پولیس نے اس نوجوان کو قابو کر لیا۔ وجہ معلوم کرنے پر نوجوان نے بتایا کہ وہ چار بھائی ہیں گھر والوں نے چھوٹے بھائیوں کی شادی کردی لیکن میری نہیں کررہے ، اس لئے تنگ آکر اپنی زندگی کا خاتمہ[1]  کرنے آیا تھا۔[2]

شادی میں تاخیر پر احتجاج  ( Protest ) کی انوکھی خبریں عام ہوتی رہتی ہیں ، ان میں سے ایک خبر تو آپ پڑھ چکے ہیں ، دوسری بھی پڑھئے: تُرکی میں ایک گاؤں ” اُوزملو  ( Uzumlu )   “ میں کم و بیش 25 جوانوں نے شادیوں میں تاخیر پر احتجاج کیا ، تفصیلات کے مطابق 233 لوگوں پر مشتمل اس گاؤں میں 9 سال پہلے ایک شادی ہوئی تھی اس کے بعد کوشش کے باوجود کسی لڑکے کی شادی نہ ہوسکی ، احتجاج کرنے والوں کی عمریں 25 سے 45 سال کے درمیان ہیں۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ اس گاؤں کا مسئلہ روزگار نہیں بلکہ شادیوں کا نہ ہونا ہے۔  [3]

وہ مجھ سے نہیں :رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ فَمَنْ لَمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ یعنی نکاح میری سنّت ہے تو جس نے میری سنّت پر عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں۔   [4]

حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس طرح کی احادیث کی وضاحت میں فرماتے ہیں: یعنی ہماری جماعت سے یا ہمارے طریقہ والوں سے یا ہمارے پیاروں سے نہیں یا ہم اس سے بیزار ہیں ، وہ ہمارے مقبول لوگوں میں سے نہیں ، یہ مطلب نہیں کہ وہ ہماری اُمت یا ہماری ملت سے نہیں کیونکہ گناہ سے انسان کافر نہیں ہوتا۔[5]

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین ! یقیناً نکاح بہترین عبادت ہے کہ اِس سے نَسلِ انسانی کی بَقا ہے ، یہی صالحین وعابدین  ( یعنی نیک لوگوں ) کی پیدائش کا ذریعہ ہے ، شادی انسان کو بدکاری جیسے غلیظ اور گھناؤنے گناہوں سے بچنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔اسی طرح شادی ہماری سوشل لائف کا اہم حصہ ہے۔ شادی کی وجہ سے میاں بیوی کا ہی تعلق قائم نہیں ہوتا بلکہ دو خاندان آپس میں جُڑتے ہیں اور درجنوں رشتے وجود میں آجاتے ہیں ، جیسے ساس سسر ، نند بھابھی ، پھر جب اولاد پیدا ہوتی ہے تو دادا دادی ، نانا نانی کے ساتھ ساتھ کوئی چچا بنتا ہے تو کوئی ماموں ! کوئی پھوپھی تو کوئی خالہ بن جاتی ہے ، چچا زاد ، ماموں زاد ، پھوپھی زاد کزنز کی بھی لائن لگ جاتی ہے۔

شادی کب ہونی چاہئے ؟ لڑکے یا لڑکی کی شادی کس عمر میں ہوجانی چاہئے ؟ اس کا انحصار ہمارے معاشرے میں فیملی بیک گراؤنڈ ، سوشل اسٹیٹس ، ایجوکیشن ، معاشی حالات ، رسم و رواج اور مختلف نظریات پر ہوتا ہے ، اس لئے اس سوال کے آپ کو طرح طرح کے جوابات ملیں گے ، مثلاً کچھ لوگوں کے نزدیک 20 سے 25 سال کی عمر تک لڑکی کی شادی ہوجانی چاہئے ، اس کے بعد تاخیر ہونا شروع ہوجائے گی ، بعض کہتے ہیں بیس بائیس سال کی عمر میں ہوجانی چاہئے اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لڑکے کی شادی کے لئے 25 سے  30 سال کی عمر مناسب ہے ، بعض بیس پچیس سال کی عمر میں لڑکے کی شادی ہوجانا ضروری سمجھتے ہیں ، ایک رائے یہ بھی سامنے آتی ہے کہ لڑکے کی شادی میں تاخیر اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے البتہ لڑکی کی شادی جلدی ہوجانی چاہئے۔آج سے 30 سال پیچھے چلیں جائیں تو ان سوالات کے جوابات کچھ اور ہوں گے ، الغرض جتنے منہ اتنی باتیں !

اسلامی نقطۂ نظر: اسلام ہمیں مکمل نظام زندگی دیتا ہے ، اس لئے ہمیں اپنی رائے کو فوقیت دینے کے بجائے اسلامی احکامات کو ترجیح  ( Priority ) دینی چاہئے۔ چنانچہ نکاح کرنا کبھی فرض ، کبھی واجب ، کبھی سنت مؤکدہ ، کبھی مکروہ اوربعض اوقات تو حرام بھی ہوتا ہے۔ اسلامی احکامات کی بہترین کتاب ” بہار شریعت “ جلد2 کے صفحہ 4اور5 پر صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

 ( 1 ) اعتدال کی ( نارمل )  حالت میں یعنی نہ شہوت کا بہت زیادہ غلبہ ہو نہ عِنین ہو اورمَہر و نفقہ ( کپڑے ، کھانے پینے وغیرہ کے اخراجات )  پر قدرت بھی ہو تو نکاح ” سُنّتِ مؤکدہ “ ہے کہ نکاح نہ کرنے پر اَڑا رہنا ” گناہ “ ہے اور اگر حرام سے بچنا یا اتباعِ سُنّت ( یعنی سنت پر چلنا )  و تعمیلِ حکم  ( یعنی حکم پر عمل کرنا )  یا اولاد حاصل ہونا مقصود ہے تو ” ثواب “ بھی پائے گا اور اگر محض لذّت یا قضائے شہوت  ( یعنی شہوت کو پورا کرنا )  منظور ہو تو ثواب نہیں۔

 ( 2 ) شہوت کا غلبہ ہے کہ نکاح نہ کرے تو معاذ اللہ اندیشۂ زنا ہے اور مہر ونفقہ کی قدرت رکھتا ہو تو نکاح ” واجب “ ۔ يوہيں جبکہ اجنبی عورت کی طرف نگاہ اُٹھنے سے روک نہیں سکتا یا معاذ اللہ ہاتھ سے کام لینا پڑے گا تونکاح ” واجب “ ہے۔

 ( 3 ) یہ یقین ہو کہ نکاح نہ کرنے میں زنا واقع ہو جائے گا تو ” فرض “ ہے کہ نکاح کرے۔

 ( 4 ) اگر یہ ” ا ندیشہ “ ہے کہ نکاح کریگا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا جو ضروری باتیں ہیں ان کو پورا نہ کرسکے گا تو’’مکروہ ‘‘ ہے اور ان باتوں کا ’’یقین ‘‘ہو تو نکاح کرنا ’’حرام ‘‘مگر نکاح بہرحال ہو جائے گا۔[6]

معلوم ہوا کہ نکاح کا حکم سب کے لئے ایک نہیں ہے اور غور طلب بات یہ ہے کہ ان اسلامی احکامات میں کئی باتیں ایسی پوشیدہ  ( Hidden )  ہیں جن کے بارے میں خود لڑکا یا لڑکی ہی بہتر بتا سکتے ہیں لیکن ان کی کیفیت وحالت پر غور کئے بغیر خاندان کے بڑے اکثر خود ہی فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ان کی شادی کب کی جائے ؟

شادی کے لئے کیا چیز ضروری ہے ؟ نکاح کے بارے میں اسلامی احکامات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ شادی کے لئے لڑکے کو کم سے کم تین چیزیں پوری کرنی ہیں :  ( 1 ) مہر ( 2 ) نان نفقہ اور  ( 3 ) بیوی کے حقوق۔

 ( 1 ) مہر کی کم از کم مقدار دس درہم یعنی دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی یا اتنی ہی چاندی کی قیمت کی کوئی اور شے ہے۔[7]دس درہم چاندی کی مقدار تقریباً 30 گرام 618 ملی گرام بنتی ہے۔ نکاح کے وقت مارکیٹ سے اس کا ریٹ معلوم کرلیا جائے۔یہ حق مہر کی کم سے کم مقدار ہے ، اس سے زیادہ جتنا رکھنا چاہیں رکھ سکتے ہیں۔ حق مہر دولہا خود ادا کرے یا اس کی طرف سے کوئی اور مثلاً باپ ، چچا ، ماموں ، دوست ، دادا ، نانا وغیرہ ادا کردے ، دونوں طرح سے درست ہے۔

 ( 2 )  نان نفقہ میں کھانا ، رہائش اور موسم کے اعتبار سے سال میں دو جوڑے کپڑے اور گھر میں استعمال میں آنے والے برتن ، بستراور ضروری سامان وغیرہ شامل ہیں۔[8]

 ( 3 ) عورت کا یہ بھی حق ہے کہ شوہر اس کے بستر کا حق ادا کرتا رہے۔شریعت میں اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے مگر کم سے کم اس قدر تو ہونا چاہئے کہ عورت کی خواہش پوری ہو جایا کرے اور وہ اِدھر اُدھر تاک جھانک نہ کرے۔[9] مزید یہ کہ اچھا سلوک ، اس کے محارم سے ملنے جلنے کی اجازت نیز اخلاقی اعتبار سے بیمارپرسی ، میک اپ کا ضروری سامان اور مرد کا بیوی کے لئے صاف ستھرا رہنا بھی بیوی کے حقوق کا حصہ ہے۔[10]

تاخیر کے نقصانات: عمر بڑھنے سے قد کاٹھ اور شعور ہی نہیں بڑھتا بلکہ جذباتی وفطری خواہشات میں بھی اضافہ ہوتا ہے ، اگر ان کو کنٹرول نہ کیا جائے تو یہ انسان کو حیوان بنا دیتی ہیں۔ آج کل کے حالات آپ کے سامنے ہیں کہ سوشل میڈیا ، میڈیا ، فلمیں ، ڈرامے ، فحش اور بے ہودہ ویب سائٹس ، اسکول کالج اور گلی محلوں میں ہونے والے معاشقے  ( Love affairs ) ، بُری صحبت ، گناہ کرنے میں سہولت ، یہ سب مل کر انسان میں موجود شہوت کو چنگاری سے بھڑکتی آگ میں تبدیل کردیتے ہیں جو نوجوانوں کے کردار کو جلاکر راکھ کردیتی ہے۔ ایسے میں شادی جو فطری خواہش پورا کرنے کا واحد حلال ذریعہ ہے ، اس میں تاخیر ہونا بہت خطرناک ہوسکتا ہے ! ایسے میں ماں باپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی اولاد کو معاشرتی درندوں سے بچانے کے لئے ان کی مناسب وقت پر شادی کردیں۔ اس خوش فہمی کا شکار نہ ہوں کہ ہماری اولاد کو تو کسی بات کا پتا ہی نہیں ! ہوسکتا ہے سوشل میڈیا ، میڈیا اور دوستوں نے انہیں وہ کچھ سکھا دیا ہو جس کا آپ کو وہم وگمان بھی نہ ہو۔شادی کا راستہ طویل ہوتا دیکھ کر کئی نوجوان گھروں سے بھاگ کر کورٹ میرج کرلیتے ہیں پھر اپنی فیملی کی رسوائی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اخبارات میں چھپنے والی خبریں اور رپورٹیں گواہ ہیں کہ کورٹ میں ہونے والی ہزاروں شادیوں میں سے اکثر کاانجام اچھا نہیں ہوتا ، ایک دوسرے پر اپنی جان قربان کرنے اور ایک ساتھ زندگی گزارنے کے وعدے کرنے والے جوڑے انہی کورٹ کچہریوں میں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ شادی میں تاخیر ہونے پر اکثر  ( خاص طور پر لڑکیوں کو )  گزارے لائق رشتہ ملتا ہے۔ شوگر ، بلڈ پریشر ، معدے اوردل وغیرہ کے امراض بھی فاسٹ ہوگئے ہیں جو بیماریاں پہلے40 یا 45 سال کی عمر میں ہوتی تھیں اب 20 ، 25 سال والوں کو ہورہی ہیں ، چنانچہ کنوارے مریضوں کا رشتہ بھی جلدی نہیں ملتا ، پھر موٹاپے یا گنجے پن کی وجہ سے جوانی کا حسن بھی ماند پڑنا شروع ہوجاتا ہے ، جس کی وجہ سے شادی میں تاخیر پر تاخیر ہوتی چلی جاتی ہے۔شادی کے انتظار میں بیٹھے نوجوانوں کے ماں باپ یا کسی کاانتقال ہوجائے تو ان کی شادی کروانے کے لئے کم ہی لوگ آگے بڑھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا انتظار مزید طویل ہوجاتا ہے۔

شادی میں تاخیر کے مزید بھی کئی نقصانات ہوتے ہیں جنہیں ہر کوئی اپنے اردگرد غور کرکے دیکھ سکتا ہے۔

تاخیر کا ذمہ دار کون ؟ سوچنے کی بات ہے کہ جب شادی میں تاخیر کےاتنے نقصانات ہیں تو کیا وجہ ہے کہ شادی مناسب وقت پر نہیں کی جاتی ؟ اس کی ایک بڑی وجہ مشکل شرطیں لگانا ہے ، مثلاً  * بڑے بہن بھائیوں کی شادی تک چھوٹے کی شادی نہیں ہو گی  * پہلے ساری بہنوں کی شادیاں ہوں گی پھربھائی کی ہوگی  * برادری سے باہر رشتہ نہیں کریں گے * لڑکی پہلے دنیاوی تعلیم مکمل کرے گی پھر اس کی شادی ہوگی  * مالدار رشتہ ملے گا تو شادی ہوگی  * پہلے اپنا ذاتی گھر تعمیر ہوگا پھر شادی ہوگی  * سارا قرضہ اتارنے کے بعد شادی کریں گے  * پہلے سارے رسم و رواج پر خرچ ہونے والی رقم کا بندوبست کرو پھر تمہاری شادی کریں گے وغیرہ۔

مشورہ :والدین یا فیملی کے بڑے سے درخواست ہےکہ پہلے کسی کام کا سوچا جاتا ہے پھر وہ کام عملی طور پر انجام پاتا ہے ، اس لئے اپنے متعلقین میں نگاہ دوڑائیے اور جن کی شادی میں تاخیر ہوتی دکھائی دے ، ان میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اپنے دل کی بات نہیں کہہ پارہے ہوں گے ، کوشش کرکے ان کی جلد شادی کروا دیجئے۔اس کے بھی فائدے ہیں کہ اچھے رشتے ہاتھ سے نکلنے کا رنج نہیں رہتا ، ماں باپ کی جوانی کا سفر ختم ہوتا ہے تو اولاد نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہوتی ہے۔

اللہ پاک ہمیں اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ



[1] یاد رہے کہ خودکشی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ، تفصیلات کے لئے مکتبۃ المدینہ کا رسالہ: ” خودکشی کا علاج “ ( 80صفحات )  پڑھئے۔

[2] دنیانیوز ویب سائٹ ، 2 جنوری 2023

[3] دنیا نیوز ویب سائٹ

[4] ابن ماجہ ، 2/406 ، حديث: 1846

[5] مراٰ ۃ المناجیح ، 6/560

[6] مزید تفصیل کے لئے فتاویٰ رضویہ جلد 12 ، صفحہ 291 سے صفحہ307 تک پڑھ لیجئے۔

[7] فتاویٰ رضویہ ، 12/162 ملتقطاً

[8] بہارِ شریعت ، 2/260تا267 ، ماخوذاً

[9] جنتی زیور ، ص69

[10] تفصیل کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ” جنتی زیور “ صفحہ 69تا85 پڑھئے۔


Share

Articles

Comments


Security Code