دعوتِ اسلامی کی ترقی کا راز

* مولانا  محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ ستمبر 2021

یہ غالباً 1978ء کی بات ہے کہ کراچی اولڈ سٹی ایریا میں واقع نور مسجد میں ایک 28سالہ جوان امامت کیا کرتا تھا۔ یہ جوان کافی عرصے سے بےعملی کے عِفریت کو طاقتور ہوتا دیکھ رہا تھا ، فِی الوقت وہ ایک مسجد کا امام تھا لیکن اس امام کی روش دیگر ائمہ سے کچھ جدا تھی۔ بےعملی کے آسیب سے چھٹکارا دلانے کے لئے وہ عملاً کوشش کیا کرتا ، مسجد میں آنے والے نمازیوں کی فکری تربیت کرتا ، اِرد گِرد بسنے والے مسلمانوں کو مسجد سے وابستہ کرنے کے لئے پُر اثر نصیحت کرتا ، لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہوکر ان سے خیر خواہی کا عملی اظہار کرتا۔ ان اخلاقِ حسنہ کے پیکر امام پر ایک ہی دُھن سوار تھی کہ فکری انتشار اور بدعملی کا شکار ہونے والوں کی اصلاح کرے ، پیکرِ اخلاص امام اپنی بساط بھر کوشش کرتا رہا ، اس کی کوشش کے ثمرآور نتائج کو دیکھ کر یہ ہی لگ رہا تھا کہ رحمتِ الٰہی سے یہ امامِ مسجد اپنے نیک مقصد میں یقیناً کامیاب ہوگا۔ ایک وقت وہ آیا جب 2ستمبر 1981ءکو عاشقانِ رسول کی دینی تحریک “ دعوتِ اسلامی “ کا آغاز ہوا ، اِس امام کی اپنے رفقا کے ساتھ مل کر کی جانے والی خلوص سے بھرپور قابلِ رشک کوششوں کی بدولت دعوتِ اسلامی ترقی کی منزلیں طے کرتی گئی اور اِس امام کو دنیا “ امیرِ اہلِ سنّت مولانا محمد الیاس عطّار قادری “ کے نام سے جاننے لگی اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آپ کو اپنا رہبر و رہنما مان کر اسلام کی روشن تعلیمات عملی طور پر اپنانے لگی۔

کسی بھی فعّال تحریک کی دو علامات ہوتی ہیں :

(1)واضح اور پُراثر مقصد(2)منظم اور مربوط نظام۔

دعوتِ اسلامی کے عروج اور کامیابی میں اللہ کی رحمت سے یہ دونوں علامات بہت زیادہ کار فرما نظر آتی ہیں ، آئیے! اس کی تفصیل ملاحظہ کرتے ہیں :

(1)دعوتِ اسلامی کا واضح اور پُراثر مقصد :

دعوتِ اسلامی کے قیام کا واضح مقصد انفرادی و اجتماعی اصلاح تھا جس کے لئے امیرِ اہلِ سنّت مولانا محمد الیاس عطّار قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  انفرادی طور پر پہلے سے کوشاں تھے لیکن اپنے جذبے کو بہت بڑے پیمانے پر تحریکی صورت دینے کے لئے منظم اور مربوط نظام کی ضرورت تھی۔ یقیناً سچی لگن ہر مشکل کو آسان کردیتی ہے لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ دعوتِ اسلامی کا نظام مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔

اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے جذبۂ اخلاص کارفرما تھا۔ طریقِ دعوت کی بنیادی اساس بھی یہی ہے کیوں کہ جس دعوت کے پسِ پردہ ذاتی مفادات کا حصول ، لالچ وغیرہ جیسے ناسور موجود ہوں اس کے نتائج اس سے یکسر مختلف اور عبرتناک ہوتے ہیں۔ مولانا محمد الیاس قادری شروع ہی سے پیکرِ اخلاص تھے۔ اپنے پیغام کو عام کرنے کے لئے کراچی کے مختلف علاقوں کا سفر کرکے اصلاحی بیانات کیا کرتے ، سفری اخراجات سے لے کر کھانے تک کے معاملات اپنی جیب سے ادا کرنے کی کوشش کرتے حتّٰی کہ نمک اور پانی بھی اپنے ساتھ رکھتے تاکہ اتنی معمولی چیز کے لئے بھی ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ اخلاص کا جب یہ عالَم ہو تو داعی کی زبان ہی متأثر نہیں کرتی بلکہ اس کے کردار کی چمک آنکھوں کو بھاتی ہے اور خوشبو  دِلوں میں رچ بس جاتی ہے۔ اسلام کے اس داعی کی دعوت کا اثر جلد ہی لوگوں نے قبول کرنا شروع کردیا ، امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کے بیان میں شرکت کرنے والے لوگوں کے اَخلاق و کردار میں حیرت انگیز تبدیلی محسوس کی جاتی ، آپ  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  جس سے ملاقات فرماتے اس کے دل کی دنیا بدل جاتی۔

 یوں معاشرے میں رہنے والے ہر عمر کے افراد خصوصاً نوجوان اس تحریک سے وابستہ ہونے لگے۔ مولانا محمدالیا س قادری صاحب کی دعوت میں سب سے متأثر کُن پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اصلاحِ اُمّت پر مشتمل مقصد و منشور اپنے سے منسلک ہر فرد کے سینے میں اتار دیا اور دعوتِ اسلامی کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے انتہائی آسان اور پاکیزہ انداز دیا۔ غالباً یہ وہی دعوتی اسلوب ہے جسے انبیا کی سنّت اور اولیا کا طریقِ اصلاح کہنا بجا اور دُرست ہوگا۔

(2)دعوتِ اسلامی کامنظم اورمربوط نظام :

دعوتِ اسلامی جوں جوں ترقی کرتی گئی اس کا کام بھی اسی رفتار سے بڑھتا رہا اب ضرورت اس اَمر کی تھی کہ فعال تحریک کے دوسرے عنصر “ منظم اور مربوط نظام “ کے لئے ایک نیا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے۔ چونکہ یہ تحریک اسلامی اصولوں پر دل و جان سے عمل پیرا ہے اور عرصۂ دراز سے شریعت و سنّت اور تصوف و احسان پر عمل کی جو تڑپ مولانا محمد الیاس قادری نے دعوتِ اسلامی سے وابستہ افراد میں پیدا کی تھی اس میں کسی بھی قسم کی کمی واقع نہ ہو اور نیا تشکیل دیا جانے والا یہ نظام کسی بھی طور پر شریعت کے خلاف نہ ہو ان تمام پہلوؤں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے “ مرکزی مجلسِ شوریٰ “ قائم کی اور تنظیمی نظم و نسق اسے سونپ کر بہترین منتظم ہونے کا ثبوت دیا۔

فعال تحریک کے مضبوط نظام کی بقا اس سے وابستہ افراد کی بہترین تربیت پر موقوف ہے کیوں کہ غیرتربیت یافتہ افراد کی کثرت کسی تحریک کے لئے ثمرآور اور سود مند نہیں ہوسکتی البتہ نقصان کا بہت بڑا سبب ضرور بن سکتی ہے۔ کسی بھی چیز کو رفتہ رفتہ درجۂ کمال تک پہنچانا تربیت کہلاتا ہے ، مولانا محمد الیاس قادری نے گھر ، بازار ، اسکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز سے لے کر انسان کی آخری آرام گاہ تک درس اور اجتماعات کا ایسا نظام رائج کیا جس کے مثبت نتائج معاشرے کے کثیر افراد میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ دعوتِ اسلامی سے جڑے کسی فرد کا تعلق معاشرے کے خوشحال طبقے سے ہو یا غریب طبقے سے ، اس تربیتی نظام نے اس کی نفسیات میں نیکی کا عنصر پیدا کرکے چھوٹی بڑی ہر بےعملی سے نجات دلانے کی کوشش کی اور یہ ثابت کردیا کہ حقیقی اسلامی تربیت انسان کے رویے پر اثر انداز ہوکر کس طرح اس کی زندگی میں حیرت انگیز انقلاب برپا کرتی ہے۔

گزشتہ 40سالوں میں اس تحریک سے وابستہ افراد کا ذوقِ علم کس قدر بڑھا ہے؟ اس کا اندازہ اس تحریک کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی ہر کتاب کی ریکارڈ سیل سے لگایا جاسکتا ہے۔ اسلامی کُتب کی اشاعت کا یہ ایک عظیم ادارہ ہے۔ یہ تحریک اپنی کُتب کے لئے گاہک نہیں بناتی بلکہ ریڈرز بڑھاتی ہے اور اس کے لئے اپنے مبلغین کو باقاعدہ ہدف دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ دعوتِ اسلامی سے شائع ہونے والی کتابیں اور رسالے بچّوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہوتے ہیں۔

جس طرح سونا نَرْم ہوکر زیور بنتا ہے ، لوہا نرم ہوکر ہتھیار بن جاتا ہے اور مٹی نرم ہوکر کھیتوں کی ہریالی کا سبب بنتی ہے ، اسی طرح اِسلامی تعلیمات کے مطابق کی جانے والی “ نرمی “ ایسی خوبی ہے جس کی بدولت انسان کے اندر رحمت ، شفقت ، آسانی ، عَفو و دَرگُزَر اور بُردْباری جیسی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے نرمی کے بارے میں ارشاد فرمایا : نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے وہ اسے خوبصورت بنادیتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال دی جاتی ہے ، اُسے بدصورت کردیتی ہے۔ (مسلم ، ص1073 ، حدیث : 6602)

معلوم ہوا کہ ہر چیز کی طرح کسی بھی فعال نظام کو مؤثر بنانے کے لئے نرمی کا کردار بہت اہم ہے۔ دعوتِ اسلامی بھی اپنا پیغام نرمی کے ساتھ پہنچانے پر یقین رکھتی ہے۔ دعوتِ اسلامی کےپیغامِ محبت (جو درحقیقت اسلام کی سچی تصویر ہے ، اس) سے متأثر ہوکر کئی غیرمسلم دامنِ اسلام سے وابستہ ہورہے ہیں ، کئی مسلمان اپنی جائیدادیں اسلام کے لئے وقف کررہے ہیں بلکہ اسلام کے پیغامِ امن کو پھیلانے کے لئے اپنی زندگیاں اس کارِخیر میں خرچ کرنے کے لئے تیار ہیں دراصل یہ دعوتِ اسلامی کے امن پسند ہونے ہی کا ثمر ہے جو اس کے فعال نظام کو مضبوط سے مضبوط تر بنارہا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code