عقیدۂ ختمِ نبوت اور صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کا کردار

عقائد

عقیدۂ ختمِ نبوت اور صحابہ کرام علیہمُ الرّضوان کا کردار

* مولانا ابو محمد عطاری مدنی

ماہنامہ ستمبر 2021

اللہ پاک نے حُضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو دنیا میں تمام انبیا و مُرسلین کے بعد سب سے آخر میں بھیجا اور رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا۔ سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے زمانے یا حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت ملنا ناممکن ہے ، یہ دینِ اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے والا کافر و مرتد ہوکر دائرۂ اسلام سے نکل جاتا ہے۔ “ ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ کے سابقہ شماروں[1]میں قراٰن و حدیث اور تفاسیر کی روشنی میں اس عقیدے کو بڑے عمدہ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ختمِ نبوت پر صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کے اعمال و اقوال بیان کئے جائیں گے جن کے پڑھنے سے اِنْ شآءَ اللہ عقیدۂ ختمِ نبوت کو مزید تقویت و پختگی ملے گی کہ عقیدۂ ختمِ نبوت صحابۂ کرام ، تابعین ، تبع تابعین ، سلف صالحین ، علمائے کاملین اور تمام مسلمانوں کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے۔

صحابیِ رسول حضرت فیروز دیلمی کا عقیدہ ختمِ نبوت کے لئے جذبہ :

نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا ،  سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے لئے صحابۂ کرام سے فرمایا کہ اسے نیست و نابود کردو۔ حضرت فیروز دیلمی  رضی اللہ عنہ  نے اُس کے محل میں داخل ہوکر اُسے قتل کردیا۔ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے غیب کی خبر دیتے ہوئے مدینۂ منورہ میں مرضِ وصال کی حالت میں صحابۂ کرام کو یہ خبر دی کہ آج اسود عنسی مارا گیا اور اسے اس کے اہلِ بیت میں سے ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا ہے ، پھر فرمایا : فَازَ فَیْرُوز یعنی فیروز کامیاب ہوگیا۔ [2]

حضرت ابوبکر صدیق اور جماعتِ صحابہ کا عقیدہ :

مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ، امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  نے رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مُسَیلمہ کذّاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لئے صحابیِ رسول حضرت خالد بن ولید  رضی اللہ عنہ  کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے مُسَیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ کی ، تاریخ میں اسے “ جنگِ یمامہ “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ و قاریِ قراٰن صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مُسَیلمہ کذّاب سمیت اس کے لشکر کے 20ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ [3] مفکرِ اسلام حضرت علّامہ شاہ ترابُ الحق قادری  رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے دس سالہ مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کُل 74 جنگیں ہوئیں جن میں کُل 259 صحابہ شہید ہوئے جبکہ مُسَیلمہ کذّاب کے خلاف جو “ جنگِ یمامہ “ لڑی گئی وہ اس قدر خونریز تھی کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200صحابہ شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ صحابہ بھی شامل ہیں۔ [4]ختمِ نبوت کے معاملے میں جنگِ یمامہ میں 24ہزار صحابۂ کرام نے شریک ہوکر اور 1200 صحابۂ کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنا عقیدہ واضح کردیا کہ حضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے آخری نبی و رسول ہیں ، حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس سے اعلانِ جنگ کیا جائے گا۔

 حضرت عمر فاروقِ اعظم کا عقیدہ :

مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ، امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہ عنہ  نے حُضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے وِصالِ ظاہری کے بعد روتے ہوئے اس طرح فرمایا : یارسولَ اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! اللہ پاک کی بارگاہ میں آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا مرتبہ اس قدر بلند ہے کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو انبیائے کرام میں سب سے آخر میں بھیجا ہے اور آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ذکر ان سب سے پہلے فرمایا ہے۔ [5]

حضرت عثمانِ غنی کا عقیدہ :

حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مُسَیلمہ کذّاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔ آپ  رضی اللہ عنہ  نے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ ، حضرت سیّدُنا عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ  کو اس بارے میں خط لکھا۔ حضرت عثمانِ غنی  رضی اللہ عنہ  نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دینِ حق اور لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کی گواہی پیش کرو۔ جو اسے قبول کرلے اور مُسَیلمہ کذّاب سے بَراءَت و علیحدگی اختیار کرے اسے قتل نہ کرنا اور جو مُسَیلمہ کذّاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کردینا۔ ان میں سے کئی لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تو انہیں چھوڑ دیا اور جو مُسَیلمہ کذّاب کے مذہب پر رہے تو ان کو قتل کردیا۔ [6]

حضرت علیُّ المرتضیٰ کا عقیدہ :

مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ، امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّين یعنی رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے دونوں کندھوں کے درمیان مُہرِ نبوت تھی اور آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  آخری نبی ہیں۔[7]

صحابیِ رسول حضرت ثُمامہ کا عقیدہ :

حضرت سیّدُنا ثُمامہ بن اُثال  رضی اللہ عنہ  نبوّت کے جھوٹے دعویدار مُسَیلمہ کذّاب سے اس قدر نفرت کیا کرتے تھے کہ جب کوئی آپ  رضی اللہ عنہ  کے سامنے اس کا نام لیتا تو جوشِ ایمانی سے آپ  رضی اللہ عنہ  کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔ آپ نے ایک مرتبہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ تاریخی جملے ادا کئے : مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ساتھ نہ تو کوئی اور نبی ہے نہ ان کے بعد کوئی نبی ہے ، جس طرح اللہ پاک کی اُلُوہیَّت میں کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح محمد ِمصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی نبوّت میں کوئی شریک نہیں ہے۔ [8]

صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کا عقیدہ :

بخاری شریف میں ہے : حضرت اسماعیل بن ابی خالد  رحمۃُ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداﷲ بن اَبی اَوفیٰ  رضی اللہ عنہما سے پوچھا : آپ نے حُضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کو دیکھا تھا؟ حضرت عبداللہ بن اَبی اَوفیٰ  رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ان کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔ اگر رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بعد کسی نبی کا ہونا مقدر ہوتا تو حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے صاحبزادے زندہ رہتے ، مگر حُضور کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ [9]

صحابیِ رسول حضرت انس کا عقیدہ :

حضرت انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں : (رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم اتنے بڑے ہوگئے تھے کہ ان کا جسم مبارک گہوارے (جھولے) کو بھر دیتا ، اگر وہ زندہ رہتے تو نبی ہوتے مگر ان کا زندہ رہنا ممکن نہیں تھا کیونکہ تمہارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  آخرُ الانبیاء ہیں۔ [10]

صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود کا عقیدہ :

حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے لوگوں کو عمدہ اور احسن طریقے سے دُرودِ پاک پڑھنے کی ترغیب دلائی تو لوگوں نے آپ  رضی اللہ عنہ  سے عرض کیا کہ آپ  رضی اللہ عنہ  ہمیں عمدہ دُرودِ پاک سکھا دیجئے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ اس طرح دُرودِ پاک پڑھو : اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ صَلٰوتَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلٰی سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ ، وَاِمَامِ الْمُتَّقِينَ ، وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ... یعنی اے اللہ! اپنی رحمتیں اور برکتیں رسولوں کے سردار ، متقیوں کے امام اور آخری نبی محمد  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازِل فرما جو تیرے بندے اور رسول ہیں...۔ [11] یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے بذاتِ خود خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے الفاظ کے ساتھ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر دُرودِ پاک پڑھا اور دوسروں کو بھی اس طرح دُرودِ پاک پڑھنے کی ترغیب دلائی۔

حضرت اُمِّ اَیْمَن کا عقیدہ :

حضرت انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ظاہری وصال فرمانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  نے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  سے فرمایا : آئیے حضرت اُمِّ اَیْمَن  رضی اللہ عنہا سے ملاقات کے لئے چلتے ہیں جیساکہ حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ان سے ملاقات فرمایا کرتے تھے۔ جب دونوں ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں۔ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر  رضی اللہ عنہما نے فرمایا : آپ کیوں روتی ہیں؟ حضرت اُمِّ اَیْمَن  رضی اللہ عنہا نے کہا : اس وجہ سے رو رہی ہوں کہ (نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے وصال کی وجہ سے) آسمان سے وحی آنے کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ یہ سُن کر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر  رضی اللہ عنہما بھی رونے لگے ۔ [12]

اللہ کریم ہمیں عقیدۂ ختمِ نبوت کی حفاظت کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیِّیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] محرمُ الحرام ، ربیع الاول ، ذوالحجۃ الحرام 1439ھ ، جُمادَی الاُخریٰ 1440ھ ، محرمُ الحرام 1441ھ اور 1442ھ

[2] خصائص الکبریٰ ، 1 / 467 ، مدارج النبوۃ مترجم ، 2 / 481 ملخصاً

[3] الکامل فی التاریخ ، 2 / 218 تا 224 ، سیرتِ سید الانبیاء مترجم ، ص608 ، 609 ، مراٰۃ المناجیح ، 3 / 283

[4] ختمِ نبوت ، ص83

[5] الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ، 1 / 45

[6] سننِ کبریٰ للبیہقی ، 8 / 350 ، رقم : 16852

[7] ترمذی ، 5 / 364 ، حدیث : 3658

[8] ثمار القلوب فی المضاف والمنسوب ، 1 / 261

[9] بخاری ، 4 / 153 ، حدیث : 6194

[10] زرقانی علی المواھب ، 4 / 355

[11] ابنِ ماجہ ، 1 / 489 ، حدیث : 906

[12] مسلم ، ص1024 ، حدیث : 6318 ، مراٰۃ المناجیح ، 8 / 301


Share

Articles

Comments


Security Code