تفسیر قراٰن کریم

حقیقی کامیابی اور اُس کے حصول کا طریقہ(تیسری اور آخری قسط)

* مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ ستمبر 2021

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

( وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ(۷))

ترجمہ : اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ تو جو اِن کے سوا کچھ اور چاہے تووہی حد سے بڑھنے والے ہیں ۔ (پ18 ، المؤمنون : 4تا7)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

کامیاب لوگوں کی تیسری خوبی

فلاح پانے والوں کے اَوصاف میں ایک وَصْف یہ بیان فرمایا : وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجمہ : اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں۔ (پ18 ، المؤمنون : 4)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اِس کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ پابندی کے ساتھ ، خوش دِلی سے ، عبادت سمجھتے ہوئے اور حکمِ الٰہی پر سَرِ تسلیم خَم کرتے ہوئے وقت پر زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میں کئی طرح فلاح ہے۔

(1)زکوٰۃ دینے والے کے دل سے مال کی مَحبت نکلتی ہے اور مال کی محبت برائیوں کی جڑ ہے۔

(2)زکوٰۃ دینے والے کے دل میں معاشرے کے محتاج و غریب لوگوں کے ساتھ بھلائی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

(3)زکوٰۃ سے لوگوں کی غُربت و تنگ دستی کا خاتمہ ہوتا ہے۔

(4)غریب کی غربت عام طور پر اُسے اَمیر سے نَفْرت ہی سکھاتی ہے ، لیکن غریبوں کو زکوٰۃ دینے سے اُن کے دل میں امیروں کےلیے نفرت کے بجائے شکرگزاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اِسی لیے جن معاشروں میں زکوٰۃ کا تصور نہیں تھا ، وہاں غریبوں نے امیروں کے خلاف شدید ترین احتجاج کیا اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں امیروں کو قتل کیا۔ اِنقلاب ِ فرانس اور انقلابِ روس کے پیچھے سب سے بڑا بنیادی سبب یہی تھا۔

(5)زکوٰۃ دینے والے سے شَر دور کردیا جاتا ہے ، چنانچہ نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی ، بے شک اللہ تعالیٰ نے اُس سے شر دور فرما دیا۔ (المعجم الاوسط ، 1 / 431)

(6)زکوٰۃ دینے سے رحمت ِ الٰہی کا نُزول ہوتا ہے ، جبکہ زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے سے رحمتِ الٰہی رُک جاتی ہے ، چنانچہ حدیث میں فرمایا : جب لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ پاک بارش کو روک دیتا ہے ، اگر زمین پر چوپائے مو جود نہ ہو تے ، تو آسمان سے پا نی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا۔ ( ابنِ ماجہ ، 4 / 368)

 بعض مُفسِّرین نے اِس آیت میں مذکور لفظِ “ زَكوٰة “ کا ایک معنی “ تزکیہ ‘‘ یعنی ’’تزکیہ ِنفس “ بھی کیا ہے ، مراد یہ ہے کہ ایسے اہل ِ ایمان کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں جو دنیا کی محبت اور مَذمُوم صفات مثلاً تکبُّر و رِیاکاری اور بُغْض وحَسَد وغیرہا سے خود کو پاک کرتے ہیں۔ اِسی “ نفس کے تزکیہ “ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا : ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴))ترجمہ : بے شک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔ (پ30 ، الاعلیٰ : 14)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ایک اور جگہ فرمایا گیا : (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ(۱۰)) ترجمہ : بے شک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا اور بےشک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپادیا وہ ناکام ہوگیا۔ (پ30 ، الشمس : 9 ، 10)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  تزکیہِ نفس کرنے والے کو کا میابی کا ملنا بہت واضح ہے کہ آخرت میں نجات و جَنَّات اُن لوگوں کےلیے ہیں ، جو قلبِ سلیم یعنی سلامتی والا دل لے کر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ اِس کے ساتھ دنیاوی اعتبار سے بھی وہی لوگ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں ، جو تزکیہِ نفس کرتے ہیں ، یعنی خود کو مال و دنیا کی محبت اور تکبُّر و حَسَد وغیرہ سے بچا کررکھتے ہیں ، کیونکہ جائز طریقے سے مال کا حصول برا نہیں ہے ، لیکن مال کی محبت میں ڈوب جانا بہت برا ہے ، کہ یہ انسان کو کنجوس ، مَفاد پَرَست ، اِبْنُ الوَقْت اور خود غرض بنادیتا ہے اور ایسے آدمی کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا ہے۔ یونہی حَسَد و تکبُّر والا بھی برباد ہوتا ہے کہ حَسَد اُسے تمام تر مال و دولت کے باوجود چَین سے جینے نہیں دیتا کہ وہ اپنے مال سے چین پانے کی بجائے دوسروں کی ترقی سے بے چینی محسوس کرتا رہتا ہے اور اِسی طرح تکبُّر والا لوگوں میں بَددماغ ، اَنَاپَرَسْت ، مغرور اور فِرْعَونِیَّت وغیرہ کے الفاظ سے مشہور ہوتا ہے اور لوگوں میں ایسی بدنامی اور بری شہرت کامیابی نہیں ، بلکہ ناکامی ہی ہے۔

کامیاب لوگوں کی چوتھی خوبی

فلاح و کامرانی پانے والے لوگوں کی چوتھی خوبی یہ بیان فرمائی گئی : وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵)اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (پ18 ، المؤمنون : 5)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اِس خوبی کا تعلق شرم و حیا کے ساتھ ہے جو دینِ اسلام کی نہایت بنیادی اَقدار و اَخلاق میں سے ہے۔ آخرت کی کامیابی کا تعلق تو شرم و حیاکے ساتھ بہت واضح ہے کہ نبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : جو شخص مجھے اس چیز کی ضمانت دے جو اس کے جبڑوں کے درمیان اور ٹانگوں کے درمیان ہے ، یعنی زَبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے (کہ انہیں ناجائز استعمال نہیں کرے گا) ، تو میں اُسے جنّت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (بخاری ، 4 / 240 ، حدیث : 6474)

بےحیائی سے بچنے میں دنیا کی کامیابی اور فلاح کیسے ہے؟

 اس کی تفصیل یہ ہے کہ شرم و حیا کے ذریعے بے حیائی کی تباہیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ اب بےحیائی کی تباہیاں ایک نظر ملاحظہ کرلیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ اِن بربادیوں سے بچنے میں کتنی بڑی کامیابی چھپی ہوئی ہے۔

یہ ایک عالَمی سچائی (Universal Truth) ہے کہ جنسی بے راہ رَوِی کے نتائج بڑے بھیانک اورتباہ کُن ہیں کہ ایسے تمام معاشروں میں خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے۔ میاں بیوی کا تعلق اگر بن بھی جائے تو چند سال سے زیادہ نہیں چلتا اور بقیہ ماں باپ بہن بھائیوں کا تو ہونا ، نہ ہونا برابر ہے اور چچا ماموں تو اُن کے لیے گلی محلے میں پھرنے والے لوگوں کی طرح عام سے آدمی ہی ہوتے ہیں۔

(1)بے حیائی کے مرتکب لوگوں کو بارہا بلیک میلنگ (Black Mailing) کا سامناکرنا پڑتا ہے اور یوں مال بھی برباد ہوتا ہے۔

(2)خاندان کے رُوبَرو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔

(3)اگر بےحیا شخص مسلمان ہو تو نمازاور دیگر عبادات کی مٹھاس پانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

(4)بےحیا شخص کے دماغ میں گندے خیالات جمے رہتے ہیں ، جس سے نیند ، سکون اور وقت سب برباد ہوتا ہے۔

(5)ایسے لوگ گندی گفتگو کرتے ہوئے گھنٹوں ضائع کردیتے ہیں۔

( 6)بےحیائی کے کاموں سے ایڈز (Aids)اور دیگر موذی اور مُہلک امراض لگتے ہیں۔

بےحیائی کا علاج :

ایک خاص عمر کو پہنچنے کے بعد جنسی خواہشات نفسِ انسانی میں ظہور پذیر ہوتی ہیں ، جن کی تسکین کا نفس ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ ایسے افراد کے لیے اللہ کریم نے اپنی رحمت سے جائز ذریعہ عطا فرمایا ہے اور وہ “ نکاح “ ہے۔ نکاح میں جائز خواہشات کی جائز ذریعے سے تکمیل بھی ہے اور ذہنی سکون سمیت بے شمار دینی و دنیاوی فوائد بھی ہیں۔

 “ سورۃ المؤمنون “ کی آیاتِ طیبات میں بیان کردہ اِن اوصا ف کو اَپنا لیا جائے تو خدا کے فضل و کرم سے فلاح و کامیابی کے دروازے کھل جائیں گے۔ مزید اَوصاف اور تفصیلات کے لیے “ تفسیر صراطُ الجنان “ میں اِن ہی آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگرانِ مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ، دار الافتاء اہلِ سنّت فیضانِ مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code