ننھے میاں کی کہانی

ضرورت مندوں کی مدد

* حیدر علی مدنی

ماہنامہ ستمبر 2021

ننھے میاں آج بہت خوش تھے کہ ان کی سائیکل آنے والی ہے۔ دراصل کچھ مہینے پہلے مارکیٹ سے گزرتے وقت ننھے میاں کو ایک پیاری سی سائیکل نظر آئی تھی ، جب انہوں نے ابو جان سے خریدنے کا کہا تو وہ بولے : بیٹا ابھی تو پیسے نہیں ہیں ، ایسا کرتے ہیں میں ہر مہینے کی تنخواہ سے کچھ پیسے الگ رکھ لیا کروں گا یوں تین ماہ میں آپ کی سائیکل آ جائے گی۔ اور رات کھانا کھاتے ہوئے ابو جان نے بتایا تھا کہ آج تنخواہ مل جائے گی تو پیسے پورے ہو جائیں گے۔

ننھے میاں سائیکل کے خیالوں میں گم تھے جب امّی جان نے آواز دی اور کہا : یہ نیاز کا زردہ سامنے والوں کے گھر دے آؤ!

ننھے میاں : امّی جان! محرّم کا مہینا تو گزرگیا ہے پھر نیاز کس کی؟

بیٹا! یہ نیاز تو ہم نے اعلیٰ حضرت کے ایصالِ ثواب کے لئے دلوائی ہے جو اسی ماہ یعنی صفر کی 25 تاریخ کو فوت ہوئے تھے ، اب جلدی سے زردہ دے آؤ ورنہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔

مغرب کے بعد ابو جان گھر آئے لیکن خالی ہاتھ۔ کھانا کھانے بیٹھے تو ننھے میاں بولے : ابو جان آج تو آپ نے سائیکل لانی تھی۔

ابو جان : جی بیٹا!مجھے یاد تھا لیکن آفس میں ضروری کام آ گیا تھا ، آپ بس کچھ مہینے اور صبرکر لیں پھر میں اپنے بیٹے کو اچھی سی سائیکل دلواؤں گا۔

ننھے میاں سے تو کل تک صبر نہیں ہو رہا تھا ، مزید کچھ ماہ کا سُن کر تو چہرے کا رنگ ایسے بدلنے لگا جیسے بس ابھی رونے لگ جائیں گے۔

دادی جان : لیکن بیٹا! تم نے تو کہا تھا اس مہینے آ جائے گی۔

ابو جان : دراصل پیسے تو اکٹھے ہو گئے تھے امّی جان! لیکن آج صبح ڈیوٹی پر آتے ہوئے ہمارے آفس سویپر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا ، عصر کے بعد ہم سب کولیگز (Colleges)اسی کی عیادت کے لئے گئے تھے اس بیچارے کی تو ٹانگ کی ہڈی میں فریکچر ہو گیا ہے ڈاکٹروں نے بیڈ ریسٹ کا کہا ہے۔

اللہ  پاک اسے جلد شفائے کاملہ عطا فرمائے ، دادی جان کی دعا پر امّی اور ابو جان دونوں نے اٰمین کہا۔

اوپر سے بائیک کا نقصان الگ ، گھر میں کوئی بھی کمانے والا نہیں ہے۔ تبھی ہم سب نے مل کر اپنی اپنی سیونگز اسے دے دی ہے تاکہ علاج بھی اچھے طریقےسے ہو جائے اور گھر کے ضروری اخراجات بھی چلتے رہیں۔

اتنا سننا تھا کہ ننھے میاں منہ بسور کر بیٹھ گئے۔

دادی اماں نے دیکھا تو زردے کی پلیٹ ہاتھ میں لئے ننھے میاں کے قریب ہوئیں اور پیار کرتے ہوئے کہا : ننھے میاں اب اعلیٰ حضرت کی نیاز کے ساتھ بھی ناراض ہو کیا؟

ننھے میاں منہ بسورتے ہوئے دادی اماں کے ہاتھ سے پلیٹ پکڑنے لگے تو وہ بولیں : نہیں! آج میں اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں گی۔

چھوٹے چھوٹے لقمے کھلاتے ہوئے دادی اماں نے پو چھا : آپ کوپتا ہے اعلیٰ حضرت کون تھے؟ ننھے میاں : جی وہی! جنہوں نے ایک ماہ میں قراٰنِ پاک حفظ کر لیا تھا ، بہت بڑے عاشقِ رسول تھے۔

دادی نے ننھے میاں کو سمجھاتے ہوئے کہا : شاباش بیٹا ، تو آپ میری بتائی ہوئی باتیں یاد رکھتے ہو ، آج میں آپ کو ان کی ایک اور بات بتاتی ہوں ، اعلیٰ حضرت اللہ  پاک کےضرورت مند اور غریب بندوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے ، ایک بار رات میں حویلی کے پھاٹک تک آئے تو سردی کے موسم میں ملازم کو ویسے ہی بیٹھے دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھا : کوئی رضائی وغیرہ نہیں ہے تمہارے پاس کیا؟ وہ بے چارہ چُپ ہو گیا۔ آپ اندر گئے اور اپنی رضائی لا کر اس ملازم کو دے دی۔

ننھے میاں : واہ ، لیکن اپنی رضائی کیوں دے دی؟

دادی نے زردہ کا ایک لقمہ ننھے میاں کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا : ہاں جی! تبھی تو وہ اعلیٰ حضرت تھے ، اللہ  پاک کے نیک بندے غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور اللہ  پاک کو راضی کرنے کے لئے اپنی ضرورت کی چیزیں ضرورت مندوں کو دے دیتے ہیں۔ تو ننھے میاں بزرگوں کی نیاز کھانے کے ساتھ ان کی سیرت بھی اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

دادی! اب مجھے کوئی غم نہیں ، سائیکل کا کیا ہے وہ تو بعد میں بھی آسکتی ہے۔ یہ کہہ کر ننھے میاں نے اپنے ننھے منّے ہاتھ سے زردہ کا ایک لقمہ دادی کے منہ میں ڈال دیا تو دادی نے ننھے میاں کو اپنے سینے سے لگایا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ


Share

Articles

Comments


Security Code