Ahad Torne Ke Nuqsanat

Book Name:Ahad Torne Ke Nuqsanat

عہد اور وعدے میں فرق

پیارے اسلامی بھائیو! آیتِ کریمہ کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے پہلے تو عہد اور وعدے کے درمیان فرق سمجھ لیجیے! *وعدہ وہ ہوتا ہے جس میں کچھ شرائط وغیرہ مُقَرّر نہیں کی جاتیں *اور عہد وہ ہوتا ہے جس میں شرائط بھی رکھی جاتی ہیں۔

مثال کے طَور پر *زید نے کہا: وعدہ کرتا ہوں، کل آپ سے ملوں گا۔ یہ وعدہ ہے *اگر زید کہے: اگر تم آئے تو میں بھی ضَرور آجاؤں گا۔ اِس میں شرط رکھی گئی کہ تُم یُوں کرو گے تو میں یُوں کروں گا۔ اسے عہد کہتے ہیں۔

بنی اسرائیل نے 2عہد توڑے

بنی اسرائیل کے ساتھ 2قسم کے عہد تھے: (1):ایک عہد وہ ہے جو انہوں نے  اللہ  پاک سے کیا، یہ وہ عہد ہے جو بنی اسرائیل سے تَوْرات میں لیا گیا تھا کہ جب محبوبِ ذیشان، مکی مَدَنی سُلطان  صَلَّی  اللہ  عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم  دُنیا میں تشریف لے آئیں گے تو تم اُن کا کلمہ پڑھو گے، ان پر اِیمان لے آؤ گے، اگر تم نے ایسا کیا تو  اللہ  پاک تمہیں دُنیا و آخرت میں بلند درجات عطا فرمائے گا۔  اس عہد کا ذِکْر قرآنِ کریم میں بھی ہے، اِرْشاد ہوتا ہے:

اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْۚ- (پارہ:1، سورۂ بقرۃ:40)

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان :میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا۔

یعنی اے بنی اسرائیل! وہ وعدہ جو تم سے لیا گیا، وہ تم پُورا کر دو، اس کے صلے میں وہ وعدہ جو ہم نے تم سے کیا، ہم وہ پُورا کر دیں گے۔تم محبوبِ ذیشان، مکی مَدَنی سلطان صَلَّی  اللہ  عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ