Book Name:Aqeeda e Khatme Nabuwat
اور تخصیص کی ذرّہ بھر بھی گُنجائش نہیں۔ ختمِ نبوت سے متعلِّق تفصیل یہ ہے کہ اللہ پاک نے حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تمام انبیاء و مرسلین علیہم السَّلام کے آخر میں مَبْعوث فرمایا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نبوت و رِسالت کا سلسلہ ختم فرما دیا، آپ کے ساتھ یا آپ کے بعد قیامت قائم ہونے تک کسی کو نَبُوَّت ملنا مُحال ہے۔ یہ عقیدہ ضروریاتِ دین سے ہے، اس کا منکر اور اس میں ادنیٰ سا بھی شک و شبہ کرنے والا کافر، مرتد اور ملعون ہے۔
اس آیتِ کریمہ کی تفسیر خُود آخری نبی، رسولِ ہاشمی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی فرمائی، صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے بھی اس کی تفسیر بیان کی، تابعین نے بھی بیان کی، پِھر اس کے بعد سے لے کر 13 صدیوں کے عُلَمائے کرام نے بھی اس آیت سے متعلق بہت خُوبصُورت اورعلمی تحقیقات فرمائی ہیں، سیدی اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان 13 صدیوں کی تحقیقات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خَاتَمُ النَّبِیّٖن کا معنی ہے: آخِرُ الْاَنْبِیَاء یعنی (سب سے آخری نبی کہ) حُضُور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ یا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد قِیامت تک کسی کو نُبوَّت ملنی مُحَال ہے۔ آیت کے اس معنیٰ میں کسی قسم کی تاویل یا تخصیص کرنا (یعنی اپنی مرضی کے معنیٰ نکالنا) کُفر ہے۔([1])
مذکورہ بالا آیت کے علاوہ بیسیوں آیات ایسی ہیں جو مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے کی تائید و تَثْوِیب کرتی ہیں جیسے آپ کی رِسالت کے پہلو سے دیکھا جائے تو (1)آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سب انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔(پ9، الاعراف:158) (2)تمام لوگوں کے لئے بشیر و نذیر بنایا گیا۔(پ22، سبا:28) (3)آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سارے جہانوں کو عذابِ الٰہی سے ڈرانے والے۔(پ18، الفرقان:01)