Book Name:Daman Sakhi Ka Thaam Lo
مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حُجرہ شریف کے قریب ہی رات گزارتا تھا (تاکہ وُضو کے لیے پانی یا مسواک وغیرہ کسی چیز کی حاجت ہو تو پیش کر سکوں)۔([1])
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے، تاجدارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نیند سے بیدار ہوئے تو میں وُضُو کے لیے پانی اور مسواک وغیرہ لے کر حاضِر ہو گیا۔(میری یہ خِدْمت دیکھ کر دریائے کرم جوش پر آ گیا، سخیوں کے سخی، مکی مَدَنی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عطاؤں کا دروازہ کھولتے ہوئے) فرمایا: سَلْ! اے رَبِیعَہ! مانگو! میں نے عرض کیا: اَسْاَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِیْ الْجَنَّۃِ یعنی یَارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !میں آپ سے جنّت میں آپ کا پڑوس مانگتا ہوں۔([2])
سائل ہوں تِرا، مانگتا ہوں تجھ سے تجھی کو مَعْلُوم ہے مجھ کو تری اِقرار کی عادت
حضرت جمیلِ رضوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:
میں تری دَین کے قربان کہ تیرے منگتا تجھ سے جو چاہتے ہیں مانگ لیا کرتے ہیں ([3])
مانگنے کو تو حضرت رَبِیعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے سب کچھ ہی مانگ لیا تھا مگر میرے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سخیوں کے سخی ہیں، آپ کی عطاؤں کی شان ہی نِرالی ہے۔
میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا دریا بہا دئیے ہیں، دُر بے بہا دئیے ہیں([4])
حضرت رَبِیعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُجنّت میں آقا کا پڑوس مانگ چکے تھے، سرکارِ عالی وقار، مکی مَدَنی تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اَوَ غَیْرَ ذٰلِکَ یعنی کیا کچھ اور بھی چاہیے؟ عرض