Book Name:Mohabbat e Rasool Ke Waqiat
آئے ہیں، بس سب کی نگاہوں میں پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جلوے پھر سے اُبھرنے لگے، بے قرار دل تڑپنے لگے، لوگ مِنَّت وسماجت اور رو رو کر اِلتجائیں کرتے ہوئے حضرت بلال رَضِیَ اللہ عنہ سے ایک بار پھر اپنی سوزوگُدَاز بھری اَذان سنانے کا مُطالبہ کرنے لگے مگر حضرت بلال رَضِیَ اللہ عنہ نے مَعْذرت کی اور اِرشاد فرمایا:اے بھائیو! تم جانتے ہو کہ جب میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ظاہری حیات میں اَذان دیتا تھا تواَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ کہتے ہوئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دیدار کر لیا کرتا تھا لیکن آہ! آج وہ مَنْظَر نگاہوں سے اوجَھل ہوگا! اس لیے میں اذان دینے کی تاب نہیں رکھتا۔ بہرحال سَیِّدُنا بلال رَضِیَ اللہ عنہ کسی صورت اذان دینے پر راضی نہ ہوئے۔
بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عنہ م نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ حسنینِ کریمین رَضِیَ اللہ عنہ ما کو بلا لیا جائے کہ جب رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نواسے فرمائش کریں گے تو پھر حضرتِ بلال رَضِیَ اللہ عنہ کے پاس اِنکار کی گنجائش نہ رہے گی۔چنانچہ لوگ جلدی سے دونوں شہزادوں کو لے آئے۔ حضرت بلال رَضِیَ اللہ عنہ نے دونوں شہزادوں کو سینے سے چمٹا لیا اور پیار کرنے لگے۔شہزادوں نے فرمائش کی: اے بلال! ایک بار ہمیں وہ اَذان سنا دیجیے جو آپ ہمارے نانا جان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حیاتِ ظاہری میں دیا کرتے تھے۔اب اِنکار کی گنجائش کہاں تھی؟ چنانچہ حضرت بلال رَضِیَ اللہ عنہ مسجدِ نبوی شریف کی چھت کے اُس حصے میں تشریف لے گئے جہاں حضور نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حیاتِ ظاہری میں اذان دیا کرتے تھے۔
جب حضرت بلال رَضِیَ اللہ عنہ نے مدینہ شریف کی پُر نور فضاؤں میں اپنی سوز بھری آواز میں اللہ اکبر ،اللہ اکبرسے اذان کا آغاز فرمایا تو دَرو دیوار دہل گئے، لوگوں میں ہیجان کی کیفیت