Book Name:Sikka Naya Chalega
اسرائیل کو دیا گیا تھا، بنی اسرائیل میں کسی سے گُنَاہ ہو جاتا تو اُس کا گُنَاہ اور اُس کا کفّارہ دروازے پر لکھ دیا جاتا تھا، اگر وہ کفّارہ دیتا تو دُنیا میں رُسْوائی ہوتی تھی، نہ دیتا تو آخرت میں رُسْوائی کا سبب بنتا تھا، تمہارے لیے اللہ پاک نے فرمایا: ([1])
وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰) (پارہ:5، النساء:110)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: اور جو کوئی بُرا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔
یعنی تم میں سے کوئی گُنَاہ کرے تو اُس کے دروازے پر گُنَاہ لکھا نہیں جاتا، کفّارہ دے کر لوگوں کے سامنے رُسْوائی نہیں ہوتی، تمہارے لیے یہ قانُون رکھا گیا کہ گُنَاہ ہو گیا، بَس گھر میں چُھپ کر شرمندگی کے آنسو بہاؤ! سچّے دِل سے توبہ کر لَو، دُنیا بھی اچھی ہو جائے گی، آخرت میں بھی عذاب سے بچ جاؤ گے۔
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ کتنی پیاری بات لکھتے ہیں:
ڈر تھا کہ عصیاں کی سزا، اب ہو گی یا روزِ جزا
دِی اُن کی رحمت نے صدا، یہ بھی نہیں، وہ بھی نہیں([2])
وضاحت:مجھے تو یہ ڈر و خوف ستائے جا رہا تھا کہ نا جانے اِس دُنیا ہی میں اللہ پاک میرے گناہوں پر میری پکڑ فرما لے گا یا پھر آخرت میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا، مگر قربان جاؤ! اپنے آقا و مولا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت پر، جس نے مجھ گناہ گار کو اپنے دامن میں لے لیا اور کہا: گھبراؤ نہیں تم یہاں بھی امان میں ہو اور آخرت میں بھی۔