Guftagu Kay Adaab

Book Name:Guftagu Kay Adaab

کے ساتھ جنگیں لڑی گئیں مگر اُن کا زَور نہ ٹوٹا، آخر ایک میٹھے بَوْل اور اچھی بات نے انہیں شکست دِی، اُن کا غرور، تکبر، ظُلْم سب مٹ گیا اور یہ ظالِم تَرِین قوم اسلام کے دامن سے وابستہ ہو کر نیک رستے کی مُسَافِر بن گئی۔

واقعہ یُوں ہوا کہ خُراسان کے ایک بزرگ تھے، انہیں خواب میں حکم مِلا: جاؤ! اور تاتاری قوم میں اسلام کی دعوت پیش کرو...!! اس وقت ہلاکو خان کے بیٹے تگودار خان کی حکومت تھی، اُن بزرگ  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے اپنا سامانِ سَفَر باندھا اور تگودار خان کے دار الحکومت پہنچ گئے۔ اب اللہ والے تو پِھر اللہ والے ہوتے ہیں، سُنتوں بھرا لباس، چہرے پر سُنّت کے مطابق داڑھی شریف گویا سُنتوں کی چلتی پِھرتی تَصْوِیر تھے۔

جب تگودار خان نے انہیں دیکھا تو اسے شرارت سُوجھی، کہنے لگا: میاں...!! یہ تو بتاؤ! تمہاری داڑھی کے بال اچھے یا میرے کُتّے کی دُم...؟ بات اگرچہ غُصہ دِلانے والی تھی مگر چونکہ وہ سمجھدار مبلغ تھے، لہٰذا نہایت نَرْمی کے ساتھ فرمایا: میں بھی اپنے خالِق و مالِک (یعنی اللہ پاک) کا کتّا ہوں، اگر میں اپنے مالِک کو خُوش کرنے میں کامیاب ہو جاؤں تو میں اچھا، ورنہ آپ کے کُتّے کی دُم مجھ سے اچھی ہے کیونکہ وہ آپ کا فرمانبردار اور وفادار ہے۔

اُن باعَمَل بزرگ کی زبان سے نکلے ہوئے یہ میٹھے بول گویا تاثِیر کا تِیر تھے، جو تگودار خان کے دِل پر اَثَر کر گئے، اُس پر جو شرارت کا بُھوت سُوار تھا، وہ فورًا ہی اُتر گیا، اب وہ نرمی سے بولا: آپ میرے مہمان ہیں، میرے ہی یہاں قیام فرمائیے! چنانچہ وہ بزرگ تگودار خان کے ہاں ٹھہر گئے۔ تگودار خان روزانہ رات کو آپ کی خِدْمت میں حاضِر ہوتا، آپ نہایت شفقت کے ساتھ اسے نیکی کی دعوت پیش کرتے، آخِر ایک بزرگ کی نَرْم زبان نے وہ کام