Book Name:ALLAH Ki Riza Sab Se Bari Cheez Hai
ہے جس میں کوئی خامی ہویا جو غلطیاں یا غَلَط فیصلے وغیرہ کرتا ہوجبکہ ربِّ کائنات کی ذات ہر طرح کی خامی و خطا سے پاک ہے ۔ہاں ! یہ بات جُدا ہے کہ ناقصُ العقل بندہ بعض باتوں کی مصلحتیں نہ سمجھ پائے۔ بَہَرحال مسلمان کو چاہئے کہ اللہ پاک کے ہر کام کو مَبنی بر حکمت ہی یقین کرے خواہ اس کی اپنی عقل میں آئے یا نہ آئے۔زَبان پر آناکُجا دل میں بھی اعتِراض کو جگہ نہ دے ۔ ( [1] )
اے عاشقانِ رسول ! ہم بندے ہیں اور بندے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے رَبِّ کریم کے فیصلے پر اعتراض کرے ، اللہ پاک ہمارا رَبّ ہے ، اسی نے ہمیں پیدا فرمایا ، اسی نے ہمیں زِندگی بخشی ، وہی ہمیں رِزْق عطا فرماتا ہے ، اسی نے ہمارے لئے زمین کا فرش بچھایا ، اسی نے ہمارے لئے نیلے آسمان کی چھت بنائی ، ہر طرح کی نعمتیں ہمیں وہی عطا فرماتا ہے ، وہی ہمارا خالِق ہے ، وہی ہمارا مالِک ہے ، ہم تو بندے ہیں اور بندے کا یہی حق ہے کہ اپنے رَبّ کے فیصلے پر راضِی رہیں۔ اَصْل میں دیکھا جائے تو اعتراض اللہ پاک کے فیصلے پر نہیں بلکہ ہماری اُن خواہشات پر بنتا ہے جو اللہ پاک کی مرضی سے ہٹ کر ہیں ، مثلاً اللہ پاک نے مجھے غریب رکھا ، اس کے باوُجُود میرے دِل میں امیر ہونے کی خواہش ہے تو چاہئے کہ میں اپنی اس خواہش کو بُرا کہوں ، آخر ایک بندے کے دِل میں ایسی خواہش ہی کیوں رہے جو اس کے رَبّ کی مرضی کے خِلاف ہے ؟ امام قشیری رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ لکھتے ہیں : تقدیر سے جو کچھ ظاہِر ہو ، اس کے سامنے اپنے اختیارات کو چھوڑ دینا ، اسے عُبُوْدِیَّت ( یعنی بندگی ) کہا جاتا