Book Name:Surah Al Maun
چیز۔اس سورت کی آخری آیت میں یہ لفظ موجود ہے اس مناسبت سے اسے سُوْرَۂ مَاعُوْن کہتے ہیں ۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سُورت آدھی مکہ میں کفارِ مکہ مثلاً ابوجہل ، عاص بن وائِل وغیرہ کے متعلق نازل ہوئی جبکہ اس کا باقی آدھا حِصّہ عبد اللہ بن ابی سلول منافق کے بارے میں مدینۂ منورہ میں نازِل ہوا۔ ( [1] )
سُوْرہِ ماعُون کا ایک بنیادی نکتہ
علّامہ بُقاعِی رَحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سورۂ ماعُون میں بنیادی طَور پر یہ نکتہ سمجھایا گیا ہے کہ قیامت کے دِن اُٹھنے اور بارگاہِ اِلٰہی میں پیش ہونے کا اِنْکار کرنا اَبُو الْخَبَائِث ( یعنی بُرائیوں کی جڑ ) ہے۔ اس انکار کے سبب انسان بُرے اَخْلاق اور گھٹیا کردار کا عادِی ہو جاتا ہے۔ ( [2] )
* قیامت کے دِن کا یہی اِنْکار آدمی کو ظالِم بناتا ہے * جو قیامت کا اِنْکار کرتا ہے ، اس کے اندر سے انسانیت مٹ جاتی ہے * وہ انسان نما حیوان بن کر یتیموں ، مسکینوں اور بے سہاروں پر ظلم ڈھاتا اور انہیں دھکے دیتا ہے * یہی قیامت کا اِنْکار آدمی کو ریاکار بناتا ہے * یہی قیامت کا اِنْکار بندے کو اپنے رَبِّ کریم کا نافرمان بناتا ہے اور * اسی اِنْکار کے سبب آدمی بخل یعنی کنجوسی اور حِرْص و ہَوَس کی دلدل میں پھنس کر تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو ! ہم الحمد للہ ! مسلمان ہیں ، اللہ پاک کا بڑا فضل ہے کہ ہم قیامت پر ایمان رکھتے ہیں ، ہمارا پختہ یقین ہے کہ مرنے کے بعد بھی ایک زِندگی ہے ، اللہ پاک