Book Name:Haqooq Ul Ibad Seerat Un Nabi Ki Roshni Me
قبول کرلیا جائے گا جیسے کوئی شخص دنیا میں کسی کا مال ہلاک کردے پھر اس کی مثل لائے لیکن مال کا مالک اسے قبول کرنے یا معاف کرنے سے انکار کردے تو حاکم اس مال پر قبضہ کرنے کا فیصلہ دے گا چاہے وہ قبول کرے یا نہ کرے۔ اسی طرح میدانِ قیامت میں سب سے بڑا حاکم اور سب سے زیادہ انصاف کرنے والا اللہ کریم حکم جاری فرمائے گا۔
مکتبۃ المدینہ کی کتاب ” جنّتی زیور “ کے صفحہ نمبر103 اور 104پر لکھا ہے : اگر کسی کا تمہارے اوپر کوئی حق تھا اور تم اس کو کسی وجہ سے ادا نہیں کر سکے تو اگر وہ حق ادا کرنے کے قابل کوئی چیز ہو مثلاً کسی کا تمہارے اوپر قرض رہ گیا تھا تو اس کو ادا کرنے کی تین ( 3 ) صورتیں ہیں یا تو خود حق والے کو اس کاحق دے دویعنی جس سے قرض لیا تھا اسی کو قرض ادا کردویا اس سے قرض معاف کرالو۔ اگر وہ شخص مر گیا ہو تو اس کے وارثوں کو اس کا حق یعنی قرض ادا کر دو۔ اگر وہ حق ادا کرنے کی چیز نہ ہو بلکہ معاف کرانے کے قابل ہو مثلاًکسی کی غیبت کی ہو یا کسی پر تُہمت لگائی ہو تو ضروری ہے کہ اس شخص سے اس کو معاف کرالو۔ اور اگر کسی وجہ سے حق داروں سے نہ ان کے حقوق کو معاف کراسکا ، نہ ادا کرسکا ، مَثَلاً جن کا حق تھا وہ مرچکے ہوں تو ان لوگوں کے لئے ہمیشہ بخشش کی دعاکرتا رہے اور اﷲ پاک سے توبہ و اِستغفار کرتا رہے تو اُمید ہے کہ قیامت کے دن اﷲکریم حق والوں کو بہت زیادہ اَجرو ثواب دے کر اس بات کے لئے راضی کردے گا کہ وہ اپنے حُقوق کو معاف کردیں۔ اگر تمہارا کوئی حق دوسروں پر ہو اور اس حق کے ملنے کی اُمید ہو تو نرمی کے ساتھ تقاضا کرتے رہو۔ اگر وہ شخص مرگیا ہو تو بہتر یہی ہے کہ تم اپنے حق کو معاف کردو ، اِنْ شَآءَ اللہ قیامت کے دن اس کے بدلے میں بہت بڑا اور بہت زیادہ اَجرو ثواب ملے گا۔ ( جنتی زیور ، ص۱۰۴ ، ۱۰۳ )