Book Name:Haqooq Ul Ibad Seerat Un Nabi Ki Roshni Me
مکتبۃُ المدینہ کی کتاب ” اِحیاءُ العلوم “ جلد4 صفحہ نمبر115پر لکھا ہے : یاد رہے ! گناہ کو ذکر کرنا اور دوسروں کو اس پر آگاہ کرنا ایک نیا گناہ ہے جس کی الگ معافی مانگنا پڑے گی۔ البتہ ! جس کا حق ضائع کیا ہے اس کے سامنے بیان کرے لیکن اگر وہ معاف کرنے پر راضی نہ ہوا تو گناہ اس کے ذِمّہ باقی رہے گا کیونکہ معاف نہ کرنا اس کا حق ہے۔یاد رہے ! جس سے معافی مانگی جائے اسے چاہیے کہ معاف کردے ، حدیثِ پاک میں ہے : جس کے پاس اس کا بھائی مَعْذرت کرنے کے لئے آیا تواسے چاہیے کہ اپنے بھائی کو مُعاف کردے ، خواہ وہ جُھوٹاہو یا سچا۔جو معاف نہیں کرے گا ، حوض ِکوثرپر نہ آسکے گا۔ ( مستدرک ، کتا ب البروالصلۃ ، باب برواآباء کم تبرکم ابناء کم ، ۵ / ۲۱۳ ، حدیث : ۷۳۴۰ )
اِسے ( یعنی معافی مانگنے والے کو ) چاہئےکہ اُس سے نرمی کا سُلوک کرے ، اس کے کام کاج اور ضروریات میں مدد کرے اور اس سے مَحَبَّت اور شفقت کا اِظہار کرے تاکہ اُس کا دل اِس کی طرف مائل ہو کہ ( مشہور مقولہ ہے ) انسان احسان کا غلام ہے۔
جو شخص بُرائی کے سبب دور ہوتا ہے وہ نیکی کے ذریعے مائل ہوجاتا ہے۔ تو جب مَحَبَّت وشفقت کی کثرت ہوگی اور اس وجہ سے اُس کا دل خوش ہوگا تو وہ خود معاف کرنے پر تیار ہوجائے گا لیکن اگر وہ اس کے باوجود معاف نہ کرنے پر اِصرار کرے تو ممکن ہے کہ اس سے نرمی وشفقت کا سُلوک اور عُذر پیش کرنا مُجرم کی ان نیکیوں میں شمار ہوجائے جن کے ذریعے قیامت کے دن اس کی زیادتیوں کا بدلہ چُکایا جائے۔بہرحال اِسے چاہئے کہ مَحَبَّت وشفقت کے ذریعے اُسے خوش کرنے کی کوشش اسی طرح کرتا رہے جس طرح اُسے تکلیف پہنچانے میں کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ ایک عمل دوسرے کے برابر یا اس سے زائد ہوجائے تو قیامت کے دن اللہ پاک کے حکم سے بدلے میں اِس کا یہ عمل