Book Name:ALLAH Pak Ki Raza Sab Say Bari Naimat Hai
142 پر لکھتے ہیں : اللہ پاک پر اعتراض کرنا قطعی کفر ہے اور مُعْتَرِض ( یعنی اللہ پاک پر اعتراض کرنے والا ) کافِر ہے ، اللہ پاک خالِق و مالِک ہے ، اُسی کے پیدا کردہ بندے کا اُس پر اعتراض کرنا اُس کی شدید ترین توہین ہے ، مسلمان کو چاہئے کہ اللہ پاک کے ہر کام کو مَبنی بر حکمت ہی یقین کرے خواہ اس کی اپنی عقل میں آئے یا نہ آئے۔زَبان پر آنا کُجا دل میں بھی اعتِراض کو جگہ نہ دے ۔ ( [1] )
اے خُدائے مصطفیٰ ! ایمان پر ہو خاتمہ مغفرت کر ! واسطہ اَصْحاب و اَہْلِ بیت کا
اے عاشقانِ رسول ! ہم بندے ہیں اور بندے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے رَبِّ کریم کے فیصلے پر اعتراض کرے ، اللہ پاک ہمارا رَبّ ہے ، اسی نے ہمیں پیدا فرمایا ، اسی نے ہمیں زِندگی بخشی ، وہی ہمیں رِزْق عطا فرماتا ہے ، اسی نے ہمارے لئے زمین کا فرش بچھایا ، اسی نے ہمارے لئے نیلے آسمان کی چھت بنائی ، ہر طرح کی نعمتیں ہمیں وہی عطا فرماتا ہے ، وہی ہمارا خالِق ہے ، وہی ہمارا مالِک ہے ، ہم تو بندے ہیں اور بندے کا یہی حق ہے کہ اپنے رَبّ کے فیصلے پر راضِی رہیں۔ اَصْل میں دیکھا جائے تو اعتراض اللہ پاک کے فیصلے پر نہیں بلکہ ہماری اُن خواہشات پر بنتا ہے جو اللہ پاک کی مرضی سے ہٹ کر ہیں ، مثلاً اللہ پاک نے مجھے غریب رکھا ، اس کے باوُجُود میرے دِل میں امیر ہونے کی خواہش ہے تو چاہئے کہ میں اپنی اس خواہش کو بُرا کہوں ، آخر ایک بندے کے دِل میں ایسی خواہش ہی کیوں رہے جو اس کے رَبّ کی مرضی کے خِلاف ہے؟ امام قشیری رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ لکھتے ہیں : تقدیر سے جو کچھ