Book Name:ALLAH Pak Ki Raza Sab Say Bari Naimat Hai
ظاہِر ہو ، اس کے سامنے اپنے اختیارات کو چھوڑ دینا ، اسے عُبُوْدِیَّت ( یعنی بندگی ) کہا جاتا ہے۔ ( [1] ) حضرت رُوَیْم رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اگر بندے کے سیدھے ہاتھ پر پُوری جہنّم رکھ دی جائے تو ( اس پر اعتراض کرنا تو دُور کی بات ، اسے چاہئے کہ ) یہ بھی نہ کہے کہ یااللہ پاک ! اسے اُلٹے ہاتھ پر رکھ دے۔ ( [2] )
ایک حدیثِ قدسی میں ہے ، اللہ پاک فرماتا ہے : میں ہی اللہ ہوں ، میرے سِوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، پَس جو میری ( دی ہوئی ) مصیبت پر صبر نہ کرے ، میری نعمتوں کا شکر ادا نہ کرے اور میری تقدیر پر راضی نہ ہو ، اسے چاہئے کہ میرے سِوا کوئی اَور رَبّ تلاش کر لے۔ ( [3] )
اَلْاَمان والحفیظ ! پیارے اسلامی بھائیو ! دیکھئے ! کیسا جھنجھوڑنے والاکلام ہے ، جو بندہ اللہ پاک کی تقدیر پر ، اس کے فیصلوں پر راضی نہیں رہتا ، اسے گویا دُھتکارا جا رہا ہے ، اسے بتایا جا رہا ہے کہ وہ بندہ کہلانے کا حق دار ہی نہیں ہے۔ اَصْل میں بندہ تو وہی ہے جو رَبِّ کریم کے فیصلوں پر راضی رہتا ہے۔
کس کے در پر میں جاؤں گا مولیٰ گر تُو ناراض ہو گیا یَاربّ ( [4] )
پہلے دَور میں غُلام باقاعدہ بازار میں فروخت ہوتے تھے ، ایک مرتبہ حضرت ابراہیم