Book Name:Imam Bukhari Ki Khas Teen Aadatain

تجارت میں کبھی بھی لالچ سے کام نہ لیا جائے۔  تجارت ، کار وبار ، محنت مزدوری وغیرہ ہر قسم کے ذریعۂ مَعَاش کا یہ اُصُول ہے کہ جو شخص اپنے کام میں جتنا ایماندار ہو گا ، وہ اپنے کام میں اتنی ہی ترقی حاصِل کرے گا ، اُس کے کام میں اتنی ہی برکت رکھی جائے گی اور جو شخص دُنیا کا مال حرص اور لالچ سے کمانا چاہے گا ، اگرچہ اس کے پاس بظاہر مال زیادہ آجائے مگر اُس میں برکت نہیں ہوگی۔ دیکھئے! امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ لالچ سے بَچ کر تجارت کرنے والے تھے؛ آپ کے پاس کچھ تاجِر آئے ، انہوں نے سامان کا ریٹ لگایا ، چلے گئے ، تاجروں کا دوسرا گروہ آیا ، انہوں نے پہلے والوں سے زیادہ ریٹ لگایا اس کے باوُجُود آپ نے پہلے آنے والے تاجروں کو کم قیمت پر سامان فروخت کیا ، کیوں؟ اس لئے کہ آپ خود ہی پہلے آنے والے تاجروں کے ہاتھ کم منافع پر سامان بیچنے کی نیت کر چکے تھے ، اس نیت پر عمل کرنا اگرچہ آپ پر لازِم نہیں تھا ، آپ اگر زیادہ منافع لے کر بھی سامان فروخت کرتے تو یہ بھی بالکل جائز تھا مگر امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے اعلیٰ اخلاق وکردار پر قربان! کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خود اپنی ہی کی ہوئی نیت کا اُلٹ کرنا بھی گوارا نہ کیا اور پُوری ایمانداری کے ساتھ لالچ سے بچتے ہوئے ، اپنی نیت کو پُورا کیا اور اپنا سامان کم منافع میں فروخت کر دیا۔ شاید امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی اسی ایمانداری والی ، قناعت والی اور لالچ سے پاک تجارت ہی کی برکت سے آپ کے مال میں برکت تھی ، آپ کی ماہانہ آمدن صرف 500 درہم تھی اور اسی میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا بہت اچھا گزارہ چل رہا تھا حالانکہ آج کل ماہانہ لاکھوں کمانے والوں کے بھی خرچے پُورے نہیں ہوتے ، بےشک خرچے پُورے نہ ہونے کی اَور بہت ساری وُجُوہات ہو سکتی ہیں ، مال میں بےبرکتی کی بھی بہت وُجُوہات ہیں ، ان میں سے