Book Name:Wabae Amraz or islam

اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جس طرح طاعُوْن سے بھاگنا حرام ہے ، اسی طرح وہاں (یعنی طاعُوْن والی جگہ) جانا بھی ناجائِز وگُنَاہ ہے ، اَحادِیْث میں ان دونوں سے ممانعت فرمائی ، طاعُوْن والی جگہ سے بھاگنے میں تَقْدِیْر الٰہی سے بھاگنا ہے اور طاعُوْن والی جگہ جانے میں بلاءِ الٰہی سے مُقَابَلہ کرنا ہے اور ایسا کام کرنے کو تَوَکُّل کا نام دینا صِرْف بےوَقُوفی اور جہالت ہے۔ ([1])

بہر حال! وبائیں آئیں ، آفات آئیں تو ہم نے اپنا عقیدہ تو مضبوط رکھنا ہی ہے ، ساتھ ہی ساتھ احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرنی ہیں۔

وبائیں اور آفات کیوں آتی ہیں؟

پیارے اسلامی بھائیو! دُنیا میں وبائیں پھیلنے ، آفات آنے کی بہت حکمتیں ہوتی ہیں ، بہت دَفعہ آفات ومصائب کے ذریعے بندوں کا امتحان لیا جاتا ہے ، پَرْکھا جاتا ہے کہ کون صبر کرتا ہے اور کون بےصبری کرتا ہے ، کون اللہ پاک کی قُدْرَت وحکمت پر یقین رکھتا ہے اور کون عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہوا گمراہی کے گڑھے میں گِرتا ہے۔

 کئی مرتبہ آفات ومصائب کے ذریعے بندوں کے دَرَجات بلند کئے جاتے ہیں ، کئی آفات بطورِ خاص بندۂ مؤمن کے حق میں ذریعۂ رَحْمت ہوتی ہیں ، صدرُ الشریعہ ، حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اَمْجَد علی اعظمی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : بیماری بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے ، اس کے فائدے بےشُمار ہیں ، اگرچہ آدمی کو بظاہر اس سے تکلیف پہنچتی ہے مگر حقیقۃً راحت وآرام کا ایک  بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے ، یہ ظاہِری بیماری جس کو آدمی بیماری سمجھتا ہے ، حقیقت میں رُوحانی بیماریوں کا ایک بڑا زبردست علاج ہے ، حقیقی بیماری تواَمْراضِ رُوحانیہ (مثلاً دنیا کی محبت ، دولت کی حِرْص ، بخل ، دِل کی سختی وغیرہ) ہیں کہ یہ البتہ بہت خوف کی


 

 



[1]...فتاوی رضویہ، جلد:24، صفحہ:308بتغیر ۔