Book Name:Wabae Amraz or islam

مُعَامَلہ ایسا ہے تو غم میں ڈوب کر ، خوف زَدہ ہو کر ہمت ہار دینا ، واویلا مچانا ، شور شرابا کرنا ایک عقل مند کو کیسے زیب دے سکتا ہے ، اس لئے بندے کو چاہئے کہ چاہے جیسی بھی مشکل آجائے ، ہمت نہ ہارے بلکہ حوصلہ کرے اور اللہ پاک کی رحمت پر اُمِّید رکھے۔  

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ ہمت اور حوصلے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان خود کو موت کے حوالے ہی کر دے ، اسلام اس کی بھی ہر گز اجازت نہیں دیتا ،  اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ-   (پارہ2 ، سورۃالبقرۃ : 195)

ترجمہ کنز الایمان : اوراپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔

اسلام صراطِ مستقیم ہے ، اسلام ہمیں درمیانی راہ چلاتا ہے ، نہ تو ہم نے ہمت ہار کر بالکل مایُوس ہونا ہے اور نہ Overconfidence(اَوْوَر کَنْ فِیْ ڈَیْنس ) کا شِکار ہو کر خود کو مصیبت کے حوالے کرنا ہے ، ہمارا یہ جسم ، ہماری جان اللہ پاک کی امانت ہے ، اس کی حِفَاظت کرنا ہمارے ذِمّہ لازِم ہے ، خود کو ہلاکت پر پیش کرنا ، احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنا ، اسباب کی پرواہ نہ کرنا حقیقت میں تَوَکُّل نہیں ،  اللہ پاک کی نافرمانی ہے۔

یہ دنیا دَارُ الْاَسْبَاب ہے ، اللہ پاک نے اپنی حکمتِ کامِلہ سے ہر شَے کے اسباب پیدا فرمائے ہیں اور کاموں کے نتائج کو ان اَسْبَاب کے متعلق کیا ہے ، آگ میں ہاتھ رکھنے سے ہاتھ جلتا ہے ، پانی پینے سے پیاس بجھتی ہے ، کھانا کھا لینے سے بھوک مٹتی ہے ، ہر چیز اِسْ دُنیا میں اَسْبَاب کے تحت چلتی ہے ، جو شخص اِنْ اَسْبَاب کو چھوڑتا ہے وہ تَوَکُّل اختیار نہیں کرتا بلکہ اللہ پاک کی حکمتِ کامِلہ کا انکار کرتا ہے۔ تَوَکُّل بھروسے کو کہتے ہیں اَوْر بھروسہ دِل کی ایک کیفیت ہے ، ظاہِر میں اَسْبَاب اختیار کر کے دِل میں بھروسہ اُن اَسْبَاب کے بجائے اللہ