Book Name:Dukhyari umat ki Khayr Khuwahi

خیرخواہوںمیں سے  ایک ہیں۔ جود و سخاوت، مہرو محبت اور مہربانی و شفقت میں آپ اپنی مثال آپ تھے۔ آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے خزانے کا منہ غریبوں اورمستحق افراد کے لیے ہر وقت کھلا رہتا۔محتاج ومسکین آتےاور آپ کےدربار سے مالامال ہوکرجاتے۔ایک مرتبہ آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے کمرے میں مصروفِ عبادت تھے ۔چند درویش بھی آپ کے پاس بیٹھےہوئے تھے۔اچانک آپ اپنے مُصَلّے سے اُٹھے اور رقم کی ایک تھیلی ہاتھ میں لیے باہر نکل گئے ۔درویش بھی حیرانی کےعالَم میں آپ کے ساتھ ہو لیے، باہر آکر  دیکھا کہ چند آدمی ایک غَریبُ الحال شخص کو اپنے قرض کی وصولی کے لئے تنگDisturb)) کر رہے ہیں اور اس شخص کےپاس ایک کوڑی بھی نہیں تھی۔آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے قرض خواہوں کو بُلا کر فرمایا:یہ تھیلی لے لو اور جس قدر اس شخص سے لینے ہیں نکال لو ۔ ایک قرض خواہ  نے  اپنے  قرض  سے کچھ روپے  زیادہ لینے چاہے ۔فوراًاس کا ہاتھ خشک ہوگیا۔ چِلّا کربولا : حضور! معاف فرمائیے،میں زیادہ لینے سےتوبہ کرتا ہوں۔فوراً اس کا ہاتھ ٹھیک ہوگیا۔ مَفلوکُ الحال مقروض آپ کو دعائیں دینے لگا۔ آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ درویشوں کےہمراہ واپس تشریف لےآئے اور فرمایا: اللہ  پاک نے مجھےاس شخص کی مدد کےلئےبھیجا تھا۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّ  وَجَلَّ!اس کا مطلب پورا ہو گیا۔(فیضان بہاء الدین زکریا ملتانی،۴۱)

       میٹھی میٹھی ا سلامی بہنو!  دیکھاآپ نےکہ ہمارے بزرگانِ دین مسلمانوں کی خیرخواہی کرکے ان کی مشکلات کو دور کرتے۔ اپنے پلےسے خرچ کر کے ان کے قرض اترواتے اور ان کی خوشیوں کے اسباب پیدا کرتے۔ لیکن افسوس! فی زمانہ  ہماری حالت یہ ہےکہ٭ہم اپناکام کروانے کے لئےکبھی سگےبھائی کو تکلیف پہنچاتی ہیں توکبھی کسی پڑوسی کو،٭کبھی کسی کودھمکی  دےکر اپنا کام  نکلواتی ہیں تو کبھی دھوکہ دہی سے دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتی  ہیں،٭کبھی کسی کو دُھونس دھڑِلّے سےقابو کر تی ہیں تو کبھی جھوٹ  بول کر راہ کی رکاوٹیں صاف کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔  بس ہماری یہی دُھن ہوتی